سانپ انڈونیشی پولیس کا مقبول ترین تفتیشی آلہ بن گیا

سدھارتھ شری واستو
انڈونیشیا کے تفتیش کاروں نے پولیس تشدد کیس میں سانپ کے استعمال کی تصدیق کی ہے اور ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ زہریلا دکھائی دینے والے بڑے سائز کا مقامی سانپ ان کا کامیاب تفتیشی آلہ ہے، جس کو سامنے لائے جانے پر چالاک ملزم بھی سب کچھ فر فر اگل دیتا ہے۔ انڈونیشی پولیس کیس کو منٹوں میں حل کرکے عدالتوں میں چالان جمع کرا دیتی ہے۔ انڈونیشی جریدے، جکارتہ پوسٹ نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ ویناما جایا وجیا پولیس اسٹیشن میں چور سے تفتیش کے دوران بنائی جانے والی ایک ویڈیو لیک ہوئی تھی، جس میں موبائل چوری کرنے والے ملزم سے تفتیش اور مال مسروقہ برآمد کرنے کیلئے سانپ کا کامیابی سے استعمال کیا گیا تھا۔ اگرچہ کہ یہ ویڈیو پولیس اہلکاروں کیلئے سبکی کا سبب بن چکی ہے۔ لیکن پولیس چیف کی معذرت کے باوجود متعلقہ پولیس اسٹیشن سے اس ’’تفتیشی آلے‘‘ کو ہٹایا نہیں گیا ہے۔ انڈونیشی پولیس کے گھاگ افسران نے تسلیم کیا ہے کہ ’’سانپ‘‘ ان کا بہترین تفتیشی آلہ ہے۔ پولیس اسٹیشنوں میں ملزمان اور شاطر افراد سے تفتیش میں ان پر کوئی جسمانی تشدد نہیں کیا جاتا بلکہ حالات و واقعات کی جانچ اور سچ اگلوانے کیلئے سانپ سے کام لیا جاتا ہے۔ ہر پولیس اسٹیشن میں ایک خطرناک دکھائی دینے والا کوبرا نما سانپ یا اژدھا موجود ہوتا ہے۔ پولیس افسران کے بقول کیسا ہی بدمعاش یا شاطر چور ہی کیوں نہ ہو، وہ سانپ قریب لائے جانے پر منٹوں میں حواس کھو بیٹھتا ہے اور سچ اگلنا شروع کردیتا ہے۔ اسی لئے زہر نکالے ہوئے سانپ کو انڈونیشی پولیس ڈیپارٹمنٹ میں ’’مقبول ترین تفتیشی آلہ‘‘ قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری جانب پاپوا ریجن میں انسانی حقوق تنظیم کی جانب سے مقرر کردہ وکیل، بیرسٹر ویرونیکا کومان نے اپنے ٹویٹر اکائونٹ پر تھانوں میں اس قسم کی حرکت کو ناقابل قبول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو ایک ملزم بے گناہ ہوتا ہے اور اس پر اس قسم کا نفسیاتی تشدد غیر انسانی ہے۔ یہ عمل جسمانی تشدد سے کہیں خطرناک ہے، کیونکہ اس سے انسان کا ہارٹ فیل ہوسکتا ہے۔ ادھر پاپوا پولیس کے انٹرنل افیئر ڈائریکٹر، جانوس پی ساریگار نے بتایا ہے کہ دونوں پولیس اہلکاروں کو معطل کردیا گیا ہے اور انیمل ایکسپرٹس کو بلوا کر سانپ کو چیک کروایا گیا ہے، جنہوں نے بتایا ہے کہ سانپ زہریلا ضرور دکھائی دیتا ہے لیکن یہ بے ضرر یعنی زہر سے پاک ہے اور انسانوں کیلئے نقصان دہ نہیں ہے۔ جانوس پی ساریگار کے بقول اس سلسلے میں مذکورہ پولیس اہلکاروں کو تنبیہ بھی جاری کی گئی ہے کہ مستقبل میں ایسی کوئی حرکت ان کی پولیس ملازمت سے فراغت کا سبب بن سکتی ہے۔ جکارتہ پوسٹ نے بتایا ہے کہ پاپوا پولیس اسٹیشن سے لیک ہونے والی ویڈیو سوشل میڈیا پر شیئر ہونا شروع ہوئی تو لاکھوں صارفین نے اس ویڈیو کو ایک ’’چور کی افزائی‘‘ کی حیثیت سے دیکھا۔ لیکن انسانی حقوق کی تنظیموں اور انڈونیشی میڈیا نے ایک چور کے اوپر سانپ چھوڑ کر اس سے اعتراف جرم کرانے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ میڈیا کے دبائو نے انڈونیشی پولیس ڈائریکٹر اور پاپوا پولیس ترجمان احمد مصطفی کمال کو معافی مانگنے پر مجبور کردیا ہے۔ مقامی جریدے، کومپاس نیوز نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ پاپوا علاقے میں ایک ہفتے میں درجنوں موبائل فونز چوری کی وارداتوں نے پولیس کیپٹن اور ڈائریکٹر تفتیش کو پریشان کر دیا تھا۔ تاہم پولیس کے اعلیٰ حکام نے علاقے میں کام کرنے والے جاسوسوں کی پکی خبر پر ایک موبائل چور کا پتا چلایا، تاہم اس کے قبضے سے ایک ہی فون مل سکا۔ لیکن جب اس کو پولیس اسٹیشن میں لا کر ’’ڈرائنگ روم‘‘ میں باندھا گیا تو اس کی حالت کافی مستحکم تھی اور وہ بڑے اعتمادکے ساتھ جسمانی تشدد کیلئے تیار دکھائی دے رہا تھا۔ لیکن جب کمرے میں دو پولیس افسران اپنے ہاتھوں میں کنگ سائز کا سانپ لے کر داخل ہوئے تو اس چور کے اوسان خطا ہوگئے اور بار بار تھوک نگلتے ہوئے وہ پولیس والوں کی منتیں کرنے لگا کہ سانپ کو اس کے قریب نہ لایا جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ سانپ نے اس کو ڈس لیا تو وہ منٹوں میں تڑپ تڑپ کر مر جائے گا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ پولیس اہلکار قہقہے مار کر ہنس رہے تھے اور بل کھاتے سانپ کو بار بار اس چور کے قریب لا رہے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے چور کو وارننگ دی کہ اگر اس نے مسروقہ موبائلز برآمد نہیں کرائے تو یہ زہریلا سانپ اس کے نیکر میں ڈال دیا جائے گا۔ اس دھمکی پر چور کی حالت دیکھنے کے لائق تھی اور وہ بار بار ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا اور جان بچانے کیلئے دہائیاں دے رہا تھا۔ لیکن پولیس اہلکاروں کو اس پر بالکل رحم نہیں آرہا تھا۔ ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ چور چیخیں مارتے ہوئے تھر تھر کانپ رہا تھا اور پولیس کے تفتیشی افسر قہقہے لگا کر لطف اندوز ہورہے تھے۔ انڈونیشی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس ویڈیو نے جہاں بہت سوں کو تفریح کا موقع فراہم کیا لیکن وہیں انسانی حقوق کی تنظیموں اور مقامی سیاسی رہنمائوں نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے کہ ایک چور کی نفسیات سے کھیلنے کا یہ طریقہ غیر قانونی ہے۔ تاہم پاپوا پولیس ڈیپارٹمنٹ کے تفتیشی افسران نے بعد ازاں اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ چور سے تفتیش میں سانپ کو استعمال کرنے کے عمل نے ان کو سو فیصد کامیابی دلائی اور اس چور نے 13 مسروقہ موبائل فونز اپنے گھر سے برآمد کرائے اور باقی 34 موبائلز اپنے دوستوں کے پاس سے بر آمد کرانے میں مدد فراہم کی ہے۔ اس چور نے علاقے میں موبائل فونز چوری اور جیبیں کاٹنے والے اپنے گروہ کے متعدد افراد کے ناموں سے بھی آگاہ کیا ہے، جس پر پولیس نے ’’سانپ اسٹرٹیجی‘‘ پر کامل اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ اس سلسلے میں متعلقہ ویناما جایا وجیا پولیس اسٹیشن کے ایک ڈیوٹی افسر ٹونی آنندا نے بتایا ہے کہ تمام پولیس اہلکار پروفیشنل طریقہ پر عمل کرتے ہیں لیکن سانپ سے ڈرانے والے دونوں اہلکاروں کو شوکاز نوٹس جاری کیا گیا ہے۔ تاہم ان دونوں کو درجنوں موبائل فونزکی فوری برآمدگی پر تعریفی اسناد بھی دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جبکہ موبائل فونز کے درجنوں مالکان نے پولیس کی اس حکمت عملی کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس اہلکاروں نے جو بھی طریقہ اختیار کیا وہ سو فیصد کارگر تھا، جس پر ہم ویناما جایا وجیا پولیس اسٹیشن کے افسران کے شکر گزار ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment