’’سی پیک سے چین کو باہر کرنے کا گیم شروع ہوگیا‘‘

نمائندہ امت
پاکستان کے لئے امریکی رویے میں اچانک نرمی۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی حد درجہ گرم جوشیاں اور پیسوں کی بوریوں کا منہ کھول دینے کا عمل بے معنی نہیں۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی پاکستان آمد کے موقع پر 12 سے 20 ارب ڈالر کے معاہدے متوقع ہیں۔ معروف تجزیہ کار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون راجہ کے بقول یہ سب کچھ اس نئے کھیل کا حصہ ہے، جو اس وقت سی پیک پر کھیلا جارہا ہے۔ اس کا واحد مقصد چین کو سی پیک سے باہر کرنا ہے۔ لہٰذا نئے کھلاڑیوں کی جانب سے سی پیک پر چین سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے کا پلان بنایا گیا ہے۔ بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون سے ہونے والی بات چیت سوال و جواب کی شکل میں نذر قارئین ہے۔
س: سعودی ولی عہد کی پاکستان آمد اور اربوں روپے کے متوقع معاہدوں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات اور قطر بھی بھاری سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح امریکہ بھی سی پیک میں سرمایہ کاری کا خواہش مند ہے۔
ج: امریکہ سمیت جتنی بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کے نیوکلیئر اثاثوں کو ختم کرنا چاہتی تھیں، وہ اب ناکام ہوکر بیٹھ چکی ہیں۔ کیونکہ پاکستان نے اپنے ایٹمی اثاثوں کے لئے ایسے ٹھوس سیکورٹی اقدامات کر رکھے ہیں کہ نہ ان اثاثوں کو اب کوئی چراکر لے جا سکتا ہے اور نہ نقصان پہنچاسکتا ہے۔ ایسے میں امریکہ اور اس کے حواری ممالک کے لئے اب سب سے بڑا اور فوری خطرہ سی پیک ہے۔ کیونکہ اس پروجیکٹ کی تکمیل سے خطے میں امریکہ، بھارت اور اس کے دیگر حامی ممالک کی اجارہ داری صفر ہوجائے گی۔ پہلے سی پیک صرف پاکستان اور چین کا باہمی پروجیکٹ تھا۔ لیکن اب اس میں روس بھی شامل ہو رہا ہے۔ روس کے آنے سے وسط ایشیائی ریاستیں خودبخود اس منصوبے میں آجائیں گی۔ سی پیک میں حصہ دار بننے کے علاوہ روس ’’رشیا پاکستان اکنامک کوریڈور‘‘ بھی شروع کرنا چاہتا ہے۔ یہ سب کچھ امریکہ کے لئے الارمنگ ہے۔ لہٰذا اس پیش رفت کو روکنے اور سی پیک میں چین کے کردار کو غیر موثر کرنے کے لئے نیا پلان ترتیب دیا گیا ہے۔ جس کے تحت پہلے مرحلے میں امریکہ نے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کو میدان میں اتارا ہے۔ یہ تینوں مالدار ممالک پاکستان میں اس قدر بھاری سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں کہ اس کا حجم چین کی سرمایہ کاری سے بڑھ جائے گا۔ سی پیک کے آغاز پر چین نے 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا معاہدہ کیا تھا۔ تاہم گزشتہ دور حکومت میں اس رقم میں مزید اضافہ ہوا اور یہ سرمایہ کاری بڑھ کر 52 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ اس میں سے اب تک 18 ارب ڈالر خرچ کئے جاچکے ہیں۔ تاہم اب امریکہ، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب سے اس سے زیادہ سرمایہ کاری کی تیاری کی جارہی ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد پر 12 ارب ڈالر کے معاہدے متوقع ہیں۔ یہ سرمایہ کاری 20 ارب ڈالر تک جائے گی۔ اسی طرح متحدہ عرب امارات اور قطر بھی فی کس 10، 10 ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اگلے مرحلے میں امریکہ کی طرف سے 20 ارب ڈالر سے زائد کی انوسٹمنٹ کا امکان ہے۔ یوں ان تمام ممالک کی رقم کا حجم چین کی سرمایہ کاری سے بڑھ جائے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان ہونے والے معاہدے کے تحت سی پیک کو 2030ء تک مکمل ہونا ہے۔ اس وقت تک اس منصوبے پر چینی سرمایہ کاری کا حجم 90 سے 95 ارب ڈالر تک جاسکتا ہے۔ اس کو سامنے رکھتے ہوئے امریکہ اور اس کے ہمنوا عرب ممالک بھی اپنی سرمایہ کاری میں اضافہ کریں گے۔ مقصد یہ ہے کہ اگر سی پیک کو چین کے ہاتھ سے کھینچنا ہے تو بڑھ کر ’’بولی‘‘ لگانی ہوگی۔
س: لیکن قطر کے تعلقات تو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بہت کشیدہ ہیں۔ پھر وہ کیسے اس پلان کا حصہ بن گیا؟
ج: قطر کے چاہے سعودی عرب اور عرب امارات سے تعلقات بہتر نہ ہوں، لیکن یہ تینوں ممالک امریکی ٹولز ہیں۔ اور چونکہ یہ پلان امریکی ہے، لہٰذا وہ سی پیک کے معاملے پر ان تینوں ممالک کو ایک پیج پر لے آیا ہے۔ کوئی تین ہفتے قبل امریکہ نے اس ایشو پر قطر کا سعودی عرب اور عرب امارات سے پیچ اپ کرادیا ہے۔ سارے شیخوں کی نظر گوادر پر ہے۔ یعنی فوکل پوائنٹ گوادر ہے۔ سعودی عرب آئل ریفائنری کے بہانے دراصل گوادر میں اراضی خریدنا چاہتا ہے اور اس کا دوسرا مقصد گوادر میں بیٹھ کر ایران کو کائونٹر کرنا ہے۔ اسی طرح قطر اور متحدہ عرب امارات بھی گوادر میں مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کرکے پلان کو آگے بڑھائیں گے۔ امریکہ کی جانب سے ممکن ہے کہ ڈیموں میں سرمایہ کاری کر دی جائے۔ ایران اس پیش رفت سے ناراض ہے۔ تیل سے مالا مال گوادر اس کے لئے ہمیشہ اہم رہا ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ 1950-51ء میں پاکستان کا ایران سے ایک خفیہ معاہدہ ہوا تھا کہ پاکستان گوادر میں موجود وسیع ذخائر سے تیل نہیں نکالے گا اور نہ کسی دوسرے ملک کو تیل نکالنے کا پروجیکٹ دے گا۔ کیونکہ ایران کو خدشہ تھا کہ اگر ایک بار گوادر سے تیل نکالنے کا کام شروع ہوگیا تو اس کی پیداوار ایرانی تیل کی پیداوار سے بڑھ جائے گی۔ لہٰذا پاکستان کے ساتھ خفیہ معاہدہ کیا گیا۔ یہ معاہدہ کرانے میں اس وقت کے سیکریٹری دفاع اسکندر مرزا اور ان کی اہلیہ ناہید مرزا نے اہم رول ادا کیا تھا۔ اسکندر مرزا بعد میں پاکستان کے صدر بھی بنے۔ اسکندر مرزا کی اہلیہ ناہید اسلام آباد میں ایرانی ڈیفنس اتاشی کی اہلیہ تھیں اور بعد میں طلاق لے کر انہوں نے اسکندر مرزا سے شادی کرلی تھی۔ اسکندر مرزا اور ناہید مرزا کی کوششوں سے ہونے والے خفیہ معاہدے کی مدت 2019ء یا اواخر 2020ء میں ختم ہو رہی ہے۔ لہٰذا اب سعودی عرب اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے اور نہ صرف آئل ریفائنری لگاکر، بلکہ اراضی خرید کر گوادر میں اپنے قدم جمانے کا خواہشمند ہے۔
س: اس سارے معاملے کو چین کس نظر سے دیکھ رہا ہے؟
ج: چین اس وقت بہت پریشان ہے۔ اب اس کو سمجھ آگیا ہے کہ کھیل بگڑتا جارہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس وقت سی پیک سرد مہری کا شکار ہے۔ ایسے کئی پراجیکٹ جو اب تک بن جانے چاہئے تھے، نہیں بن سکے ہیں۔ مثلاً بلتستان میں زیر تکمیل انرجی پروجیکٹ کو پایہ تکمیل تک پہنچ جانا چاہئے تھا، لیکن ابھی تک اس کی کوئی خبر نہیں ہے۔
س: اس ساری صورتحال میں پاکستان کی ترجیحات کیا ہونی چاہئیں؟
ج: ہمیں ہر طرف سے سرمایہ کاری چاہئے۔ یہ درست ہے کہ چین ہمارا اچھا دوست ہے، لیکن آپ دیکھیں کہ حال ہی میں اس نے سری لنکا کی پورٹ خرید لی۔ زیمبیا میں بھی یہی کیا۔ ملائیشیا میں ایسا کرنے جارہا تھا، لیکن مہاتیر محمد نے روک دیا۔ کل کو اگر چین نے یہ کہہ کر کہ آپ اقتصادی طور پر ہمارے ساتھ نہیں چل سکتے، گوادر پر قبضے کی ٹھان لی تو پھر کیا ہوگا؟ لہٰذا ہمیں اپنے کارڈ عقلمندی سے کھیلنے ہوں گے۔ سی پیک کو بھی چلتے رہنا چاہئے۔ پاک رشیا اکنامک کوریڈور بھی کھلنا چاہئے اور سعودی سرمایہ کاری کو بھی آنے دینا چاہئے۔ ہر چیز میں اپنے مفادات کو آگے رکھنا ہوگا۔ دنیا کا ہر ملک یہی کرتا ہے۔ ہم پہلے امریکہ اور روس کی کولڈ وار میں مارے گئے تھے اور اس وقت ہمارے ایک طرف ابھرتی عالمی طاقتیں چین اور روس ہیں اور دوسری طرف عالمی طاقت امریکہ ہے۔ جبکہ ’’جنگ‘‘ گوادر کے معاملے پر ہے۔ جہاں نہ صرف آئل و گیس کے بڑے ذخائر ہیں بلکہ وہاں سے سی پیک کا آغاز ہوتا ہے۔ امریکہ افغانستان میں اسی لئے آیا تھا کہ اس نے وسط ایشیائی ریاستوں تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان میں بہت پہلے تیل و گیس کے ذخائر شناخت کرلئے تھے۔ چین نے جو سی پیک شروع کیا ہے، اسے سلک روڈ کے نام سے امریکہ نے بنانا تھا۔ اس حوالے سے اب بھی امریکی عزائم تبدیل نہیں ہوئے۔
س: روس بھی تو گرم پانیوں تک رسائی کے لئے افغانستان پر قابض ہوا تھا تو کیا اب اس کا ارادہ بدل گیا ہے؟
ج: یہ بڑی دلچسپ بات ہے۔ سوویت یونین نے جب افغانستان پر چڑھائی کی تو اس کا اگلا قدم پانیوں تک رسائی بتایا جارہا تھا۔ پاکستانی پالیسی سازوں، دانشوروں اور تجزیہ کاروں سب کے ذہن میں یہی بات تھی۔ اسی بنیاد پر ہم روس کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ اور فیصلہ کیا گیا کہ ہر صورت روس کو روکنا ہے۔ لیکن آج ہم خود روس کو دعوت دے رہے ہیں تو کیا گرم پانیوں تک رسائی کی روسی خواہش ختم ہو چکی ہے؟
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment