جب عبد الملک بن مروان خلیفہ بنے تو انہوں نے عراق کے گورنر حجاج بن یوسف کو لکھا کہ میرے پاس ایک ایسے شخص کوبھیجو جو دین و دنیا کی سمجھ بوجھ رکھتا ہو، اس لئے کہ میں اسے اپنا راز دان و ہم نشین یعنی اپنا خاص وزیر بنانا چاپتا ہوں۔
حجاج بن یوسف نے امام شعبیؒ کو ان کے پاس بھیجا اور خلیفہ نے انہیں اپنے خواص میں شامل کرلیا۔ خلیفۃ المسلمین ہمیشہ مشکل مسائل کو سلجھانے کے لیے ان کے علم و حکمت سے فائدہ اٹھاتے اور مشکل مراحل میں ان کی رائے پر اعتماد کرتے اور بادشاہوں سے ملاقات کے لیے انہیں اپنا نمائندہ بنا کر بھیجتے۔
خلیفہ عبدالملک کی ذہانت
ایک مرتبہ حلیفۃ المسلمین نے حضرت عامر بن شراحیلؒ کو مقام جستنیان ایک خصوصی پیغام دے کر روم کے بادشاہ کی طرف بھیجا۔ جب عامر بن شراحیلؒ اس کے دربار میں پہنچے تو اس سے ملاقات کی۔
وہ ان کی ذہانت، سمجھ داری، سیاسی سوجھ بوجھ، مطالعہ کی کثرت اور انداز بیان سے بہت متاثر ہوا۔
شاہ روم نے کئی روز انہیں اپنے پاس معزز مہمان کی حیثیت سے رکھا، حالاں کہ زیادہ دیر وہ کسی بھی سفیر کو اپنے پاس نہیں ٹھہرایا کرتا تھا۔
جب آپ نے شاہِ روم سے واپس دمشق جانے کے لیے اجازت چاہی تو شاہِ روم نے ان سے پوچھا: ’’کیا آپ شاہی خاندان میں سے ہیں؟‘‘
فرمایا: ’’نہیں! میں عام مسلمانوں میں سے ہوں۔‘‘
شاہِ روم نے انہیں واپس جانے کی اجازت دے دی اور کہا: ’’جب آپ خلیفہ عبد الملک بن مروان کے پاس جائیں، تو اپنے سفر کی ساری گار گزاری سنانے کے بعد میرا یہ رقعہ انہیں دے دینا۔‘‘
جب عامر بن شراحیلؒ دمشق واپس پہنچے، تو سب سے پہلے خلیفۃ المسلمین عبد الملک بن مروان سے ملاقات کی، روم کے متعلق اپنے دیکھے، سنے احوال بیان کئے۔
خلیفۃ المسلمین نے جو سوالات کیے، ان کا تسلی بخش جواب دیا۔ جب واپس جانے کے لیے اٹھے تو فرمایا: شاہِ روم نے امیر المؤمنین کے لیے جو خط دیا تھا، پھر وہ امیر المؤمنین کو دیا اور چل دیئے۔
جب خلیفۃ المسلمین نے خط پڑھا تو اپنے دربان سے کہا:
امام شعبیؒ کو میرے پاس بلا کر لاؤ، وہ واپس دربار میں آئے تو خلیفہ نے پوچھا: ’’کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس خط میں کیا لکھا ہوا ہے۔‘‘
آپؒ نے فرمایا: نہیں! مجھے کچھ معلوم نہیں کہ اس خط میں کیا لکھا ہے۔
خلیفہ عبد الملک بن مروان نے کہا: شاہِ روم نے مجھے اس خط میں لکھا ہے: ’’عرب قوم پر مجھے بڑا تعجب ہے، جس نے اس عظیم نوجوان کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا بادشاہ بنایا ہے۔‘‘
امام شعبیؒ نے فوراً جواب دیا: امیر المؤمنین! اس نے یہ بات اس لیے کہی کہ اس نے آپ کو دیکھا نہیں، اگر آپ کو دیکھا ہوتا تو وہ قطعاً یہ بات نہ کہتا۔
خلیفہ عبد الملک نے کہا: یہ بات اس نے شرارت کے جذبہ سے لکھی ہے، اس نے یہ شیطانی انداز اختیار کر کے مجھے آپ کو قتل کرنے پر تیار کیا ہے اور اس نے آپ جیسے سمجھ دار اور ذہین رہنما سے امت مسلمہ کو محروم کرنے کی ناپاک کوشش کی ہے۔
جب یہ بات شاہِ روم تک پہنچی وہ فوراً پکار اٹھا کہ اس قوم پر غالب نہیں آیا جاسکتا، جس کا خلیفہ اس قدر ذہین ہے۔ خدا کی قسم! میرا یہی ارادہ تھا، جو خلیفۃ المسلمین کے ذہین میں آیا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭