تثلیث سے توحید تک

ڈاکٹر امینہ کاکسن کا تعلق بھی برطانیہ سے ہے۔ ان کا آبائی نام این کاکسن ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر اور ماہر عمل الاعصاب (Neruologist) ہیں اور لندن کے قلب یعنی ہارٹ اسٹریٹ میں ان کا کلینک ہے۔ انہوں نے طویل مطالعے اور غور و خوض کے بعد 1985ء میں اسلام قبول کیا۔ ریاض (سعودی عرب) میں مقیم مشہور پاکستانی مصنف جناب حنیف شاہد نے ان سے بذریعہ ڈاک قبول اسلام کی وجوہات دریافت کیں اور اپنی قابل قدر کتاب "Why Islam Is Our Only Choice” میں محفوظ کر دیں۔ ذیل کا مضمون اسی انٹرویو کا آزاد ترجمہ ہے۔
’’میں 11 اکتوبر 1940ء کو لندن کے ایک کیتھولک گھرانے میں پیدا ہوئی۔ میری والدہ ایک امیر کبیر باپ کی بیٹی تھی، جب کہ والد برٹش امریکن ٹوبیکو کمپنی کے ڈائریکٹر تھے۔ ہم دو بہن بھائی ہیں۔ دونوں نے کیتھولک بورڈنگ اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ بھائی آج کل امریکہ میں ایک معروف تاجر ہے۔ اس کے تین بچے ہیں اور وہ کیتھولک عیسائی کی حیثیت سے آج بھی پابندی سے گرجے جاتا ہے۔
میرے والد کو ٹبیکو کمپنی کی ملازمت کے سلسلے میں 1945ء سے 1953ء تک آٹھ سال کا عرصہ مصر میں گزارنا پڑا، اس طرح بچپن کے دو سال تک مجھے بھی اس مسلمان ملک میں مقیم رہنے کا موقع ملا اور غیر شعوری طور پر میں اہل مصر کی سماجی زندگی، عمومی اخلاق اور رسوم و رواج سے بہت متاثر ہوئی۔ قاہرہ کی خوبصورت مسجدوں، ان کے میناروں اور خصوصاً اذان کی آواز نے میرے دل و دماغ پر گہرے اثرات مرتب کیے اور غیر محسوس طریقے سے میرا دل ان کی طرف کھنچتا چلا گیا۔
1947ء میں، میں واپس انگلینڈ آگئی اور یہاں ایک پرائمری اسکول میں داخل کرادی گئی۔ 1953ء میں میرے والد بھی مصر سے لندن آگئے اور ان کی راہنمائی میں، میں زندگی کے میدان میں آگے بڑھنے لگی۔ میں طبعاً محنتی واقع ہوئی ہوں۔ چنانچہ میں نے ہر امتحان میں نمایاں کامیابی حاصل کی اور ایم بی بی ایس کے بعد رائل کالج آف میڈیسن اور یونیورسٹی آف لندن سے نیوزو لوجی میں پوسٹ گریجویٹ ڈگری بھی حاصل کرلی۔ اس کے ساتھ ہی نفسیاتی تجزیے (Psychoanalytic) کاکورس بھی مکمل کرلیا۔‘‘
تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد ڈاکٹر این کا کسن نے شادی کرلی۔ بچے بھی ہوئے، لیکن بدقسمتی سے یہ شادی کامیاب نہ ہو سکی کہ ان کا خاوند ایک مادہ پرست خود غرض انسان تھا۔ وہ بیوی کو اخراجات کے لیے کچھ بھی نہ دیتا، لیکن الٹی دھونس جماتا رہتا۔ نتیجہ یہ کہ چند سال کے بعد انہوں نے اس شخص سے طلاق لے لی۔
1978ء میں ڈاکٹر موصوفہ نے لندن کے ہارٹ اسٹریٹ میں جسے میڈیکل روڈ بھی کہا جاتا ہے، اپنا کلینک بنا لیا اور پرائیویٹ پریکٹس شروع کردی۔ حسن اتفاق سے انہیں آغاز ہی میں چند مسلمان مریض خواتین سے سابقہ پیش آیا اور وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوئیں کہ خطرناک امراض اور شدید تکلیف کی حالت میں بھی مسلمان خواتین کمال درجے کی حوصلہ مندی کا مظاہرہ کرتی تھیں اور اس کا سبب خدائے واحد پر ان کا یقین و ایمان تھا۔ اس ضمن میں وہ بالخصوص دو خواتین سے بہت متاثر ہوئیں… اولاً ایک نوجوان مسلمان لڑکی اپنی بیمار ماں کو لے کر ان کے کلینک میں آئی۔
ڈاکٹر نے ایسے ہی حفظ ماتقدم کے طور پر لڑکی کا معائنہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ تو چھاتی کے کینسر میں مبتلا ہے، لیکن جب لڑکی کو اس خطرناک مرض کا بتایا گیا تو اس نے برجستہ کہا:
’’خدا کا شکر کہ یہ رب تعالیٰ کی حکمت ہے کہ میں آپ کے پاس آئی اور مجھ پر اس مرض کا انکشاف ہوگیا…‘‘ ڈاکٹر امینہ کے لیے یہ مشاہدہ بے حد حیران کن تھا کہ وہ لڑکی نہ گھبرائی، نہ روئی، نہ چلائی۔ اس نے کمال صبر اور حوصلے سے خدا کا شکرادا کیا اور اس یقین کا اظہار بھی کہ خدا کے فضل سے وہ صحت یاب ہو جائے گی۔ لڑکی کے اس رویے سے ڈاکٹر بہت متاثر ہوئی، اس مذہب کے لیے اس کے دل میں بے اختیار نرم گوشہ پیدا ہونے لگا، جس نے ایک کمزور لڑکی کو حوصلے اور صبر کی ایک خاص قوت سے روشناس کر دیا تھا۔
اسی طرح 1983ء میں ان کا تعارف اومان کے سلطان قابوس کی والدہ محترمہ سے ہوا۔ موصوفہ ذیابیطس کی مریضہ تھیں، لیکن صبر، وقار اور حوصلہ مندی ان پر بھی ختم تھی۔ وہ شاندار شخصیت کی حامل ایک خوبصورت خاتون تھیں، لیکن محبت، شفقت اور حلم کا پیکر مجسم بھی اور حالانکہ بے رحم مرض نے انہیں نچوڑ کر رکھ دیا تھا، لیکن اس کے باوجود ان کی زبان پر کبھی بھول کر بھی حرف شکایت نہ آیا… اس بزرگ بیمار خاتون کی روش نے بھی ڈاکٹر امینہ کاکسن کو غیر معمولی طور پر متاثر کیا اور اس حوالے سے وہ سنجیدگی کے ساتھ اسلام کے بارے میں سوچنے لگی… اور کچھ عرصے کے مطالعے اور غور و فکر کے بعد انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment