خلاصۂ تفسیر
یہ (خیرات) تمہارے لئے (ثواب حاصل کرنے کے واسطے) بہتر ہے اور (گناہوں سے) پاک ہونے کا اچھا ذریعہ ہے(کیونکہ طاعت سے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے۔ یہ مصلحت مالدار مومنین کے اعتبار سے ہے اور فقراء مومنین کے اعتبار سے یہ ہے کہ ان کو نفع مالی پہنچے گا جیسے لفظ صدقہ سے معلوم ہوتا ہے، کیونکہ صدقہ کے مصارف فقراء ہی ہیں اور رسول اقدسؐ کے اعتبار سے یہ ہے کہ اس میں آپؐ کی شان کی بلندی ہے اور منافقین کی سرگوشی سے آپؐ کو جو تکلیف ہوتی تھی، اس سے نجات اور آرام ہے، کیونکہ ان کو ضرورت تو تناجی یعنی سرگوشی کی تھی نہیں اور بے ضرورت محض اس لئے مال خرچ کرنا ان کو از حد شاق تھا اور غالباً اس صدقہ میں حکم یہ ہوگا کہ سب کے سامنے صدقہ کریں تاکہ نہ کرنے والا دھوکہ نہ دے سکے۔ آگے فرماتے ہیں کہ یہ حکم تو مقدور کی حالت میں ہے) پھر اگر تم کو (صدقہ دینے کا) مقدور نہ ہو (اور ضرورت پڑے سرگوشی کی) تو خدا تعالیٰ غفور رحیم ہے (اس صورت میں اس نے تم کو معاف کردیا ہے اور اس سے ظاہراً معلوم ہوتا ہے کہ یہ حکم صدقہ کا واجب تھا، مگر ناداری کی صورت مستثنیٰ تھی، آگے واقعہ ہفتم کے متعلق جو کہ واقعہ ششم سے مربوط ہے، ارشاد ہے کہ) کیا تم (یعنی تم میں کے بعض جن کا بیان واقعہ ہفتم کے ذیل میں ہوا ہے) اپنی سرگوشی کے قبل خیرات دینے سے ڈر گئے سو (خیر) جب تم (اس کو) نہ کرسکے اور خدا تعالیٰ نے تمہارے حال پر عنایت فرمائی (کہ بالکل اس کو منسوخ کرکے معاف فرمادیا، جس کی حکمت ظاہر ہے کہ جس مصلحت کے واسطے یہ حکم واجب ہوا تھا، وہ مصلحت حاصل ہوگئی، کیونکہ مصلحت سدباب تھی، جو بعد نسخ بھی باقی رہی کہ لوگ احتیاط کرنے لگے، غرض ارشاد ہے کہ جب خدا تعالیٰ نے اس کو منسوخ فرمادیا) تو تم (دوسری عبادت کے پابند رہو یعنی) نماز کے پابند رہو اور زکوٰۃ دیا کرو، اور خدا و رسولؐ کا کہنا مانا کرو (مطلب یہ ہے کہ اس کے نسخ کے بعد تمہارے قرب و قبول نجات کیلئے احکام باقیہ پر استقامت و ہمیشگی ہی کافی ہے) اور خدا کو تمہارے سب اعمال کی (اور ان کی حالت ظاہری و باطنی کی) پوری خبر ہے ۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭