جنید بغدادیؒ اپنے استاذ شیخ حارث محاسبیؒ کو یاد کرکے اکثر فرمایا کرتے: ’’افسوس! معرفت کا آفتاب غروب ہو گیا اور میں اپنے خانہ دل کو اس کی ضیاء باریوں سے منور نہ کر سکا۔‘‘
بے شک حضرت جنیدؒ کا جذبہ طلب تسکین نہ پاسکا، مگر حضرت شیخ حارث محاسبیؒ کی شکل میں آپؒ نے اس مرد جسورو غیوز کو دیکھ لیا تھا، جس کی پیشانی نیاز خدا کے سوا کسی کے آستانے پر خم نہیں ہوئی۔ حضرت سری سقطیؒ کا مقصد بھی یہی تھا کہ حضرت جنید بغدادیؒ دوسرے مشائخ کی صحبتوں سے فیض یاب ہو جائیں۔ پھر جب حضرت ابو ثورؒ اور حضرت شیخ حارث محاسیؒ جیسے بزرگ دنیا سے رخصت ہوگئے تو حضرت جنید بغدادیؒ اپنے حقیقی مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور حضرت سری سقطیؒ کے دست حق پرست پر باقاعدہ بیعت کی۔
حضرت سری سقطیؒ کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے سے پہلے حضرت جنید بغدادیؒ اپنے والد محترم کی دکان پر بیٹھے تھے۔ اس وقت جناب محمد کا انتقال ہوچکا تھا۔ حضرت جنیدؒ نے شیشے کی آبائی تجارت چھوڑ کر ریشم کا کاروبار شروع کردیا تھا۔ اور یہ سب کچھ اس لئے تھا کہ آپؒ کو کسی کے سامنے دست طلب دراز نہ کرنا پڑے۔ پھر یہ دکان بھی بند کر دی اور حضرت سری سقطیؒ کے مکان میں گوشہ نشین ہوکر شدید مجاہدے کئے۔
حضرت سری سقطیؒ نے بڑے عجیب انداز سے آپ کی روحانی تربیت کی۔ ایک دن حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنے پیر و مرشد سے عرض کیا: ’’مجھے کوئی ایسا قصہ سنائیے، جس سے عشق کی سچائی کا اظہار ہوتا ہو۔‘‘
حضرت سری سقطیؒ نے ایک کاغذ پر کچھ تحریر کیا اور کاغذ حضرت جنید بغدادیؒ کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا ’’اسے پڑھ لینا۔ یہ تمہارے لئے سات سو قصوں سے بہتر ہے۔‘‘
جب حضرت جنید بغدادیؒ نے تنہائی میں اس کاغذ کو کھول کر دیکھا تو عربی زبان کے تین اشعار درج تھے۔
ترجمہ ’’جب میں نے محبت کا دعویٰ کیا تو وہ بولی کہ تم جھوٹے ہو۔‘‘
’’اگر تمہیں محبت ہے تو تمہارے ہاتھ پاؤں اتنے درست کیوں نظر آرہے ہیں؟‘‘
’’یاد رکھو کہ محبت اس وقت تک نہیں ہوتی کہ جب تک پیٹ کمر سے نہ لگ جائے۔‘‘
’’اور تم اتنے کمزور ہو جاؤ کہ کوئی تمہیں پکارے تو جواب نہ دے سکو۔‘‘
’’اور اس قدر گھل جاؤ کہ گوشہ چشم کے سوا کچھ باقی نہ رہے، جس سے تم آنسو بہاؤ اور عاجزی کرو۔‘‘
یہ اشعار پڑھ کر حضرت جنید بغدادیؒ پر گریہ طاری ہوگیا اور آپ کے سینے میں آتش عشق اس طرح بھڑکی کہ حق تعالیٰ کی یاد کے سوا سب کچھ جل کر راکھ ہوگیا۔
حضرت سری سقطیؒ کے روحانی اسباق بہت سادہ نظر آتے ہیں، مگر ان کی گہرائی کو سمجھ کر عمل پیرا ہونا بہت دشوار ہے۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے پیر و مرشد کے درس کو بغور سنا اور اس پر سختی کے ساتھ عمل کیا۔ یہاں تک کہ آپ پر معرفت کے عجیب عجیب اسرار منکشف ہونے لگے۔ آپ اپنے اسی روحانی انقلاب کے بارے میں فرماتے ہیں۔
’’میں نے پیر و مرشد کو اکثر یہ کہتے سنا تھا کہ عشق میں بندہ ترقی کر کے اس درجے تک پہنچ جاتا ہے کہ اگر کوئی اس کے چہرے پر تلوار بھی مارے تو اسے خبر نہ ہو۔ مجھے اس بات کے درست ہونے میں شک تھا کہ کیا انسان پر ایسی کیفیت بھی طاری ہو سکتی ہے؟ مگر جب میں خود اسی حالت سے گزرا تو مجھے پیر و مرشد کے قول مبارک پر یقین آیا کہ بچپن میں حضرت سری سقطیؒ نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ خدا تیری زبان سے فیض جاری کرے گا۔ حضرت جنید بغدادیؒ کو اس بات کا بہت قلق تھا۔ آپ سمجھتے تھے کہ پیرو مرشد کا اشارہ تقریر و کلام کے ذریعے دنیاوی کامیابی حاصل کرنے کی طرف ہے۔ پھر جب آپ حضرت سری سقطیؒ کے حلقہ ارادت میں شامل ہوئے تو اکثر پیر و مرشد کی اس پیش گوئی کو یاد کر کے اداس ہو جاتے تھے۔ حضرت جنید بغدادیؒ سمجھتے تھے کہ آخرت کی کامیابی آپ کی قسمت میں نہیں ہے۔ وقت گزرتا رہا اور حضرت جنید بغدادیؒ ریاضات و مجاہدات کے ساتھ پیر و مرشد کی خدمت گزاری میں مصروف رہے۔ آخر ایک دن ایک ایسا واقعہ پیش آیا، جس نے آپ کا سارا رنج و ملال دور کردیا۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں کہ ایک روز میرے پاس چار درہم تھے۔ میں نے انہیں پیر و مرشد کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے عرض کیا: ’’یہ آپ کی نذر ہیں، انہی قبول فرمالیجئے۔‘‘
حضرت سری سقطیؒ اپنے مرید خوش اعتقاد کے اس طرز عمل سے بہت خوش ہوئے اور کسی تامل کے بغیر وہ درہم قبول فرمائے۔ پھر حضرت جنید بغدادیؒ کو مخاطب کرتے ہوئے بولے: ’’نوجوان! تجھے فلاح اخروی حاصل ہونے کی بشارت ہو۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ کو پیر و مرشد کے ارشاد گرامی پر حیرت ہوئی۔ پھر نہایت پر شوق لہجے میں عرض کرنے لگے: ’’آپ کس وجہ سے فرماتے ہیں؟‘‘
حضرت سری سقطیؒ نے فرمایا ’’مجھے اس وقت چار ہی درہم کی ضرورت تھی اور میں نے دعا مانگی تھی کہ الٰہی! یہ رقم مجھے اس شخص کے ہاتھ سے دلوا جو تیرے نزدیک فلاح پانے والا ہو۔‘‘
علامہ یافعیؒ کا بیان ہے کہ اس خوشخبری کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ کا وہ ملال دور ہوگیا جو پیر و مرشد کی پہلی پیش گوئی سے آپ کے دل پر نقش ہوگیا تھا۔
پھر حضرت جنید بغدادیؒ کی روحانیت اس درجے تک پہنچ گئی تھی کہ حضرت سری سقطیؒ بھی آپ کی گفتگو سن کر حیران رہ جاتے تھے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭