عباس ثاقب
مجھے سکھبیر کے چہرے کے تاثر میں بتدریج تبدیلی آتی نظر آئی۔ بالآخر اس کے چہرے پر شرمندہ سی مسکراہٹ نظر آئی تو میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا پستول اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’یہ لو بھائی، اپنی امانت۔ یہ جو کچھ ہوا، اس کا مجھے بہت افسوس ہے۔ لیکن تم نے خود مجھے یہ ناخوشگوار ڈراما کرنے پر مجبور کیا ہے۔ میرے پاس خود کو قابلِ اعتبار ثابت کرنے کا کوئی اور راستہ نہیں تھا اور شکوک کے سائے میں اپنی زندگی داؤ پر لگانا میرے نزدیک سراسر حماقت ہے۔ مکمل اعتماد کسی بھی پائیدار تعلق کی بنیادی شرط ہوتی ہے‘‘۔
وہ پستول لینے کے باوجود کچھ دیر خاموش بیٹھا غالباً میرے الفاظ تولتا رہا۔ بالآخر اس نے کھسیانی ہنسی ہنس کر کہا۔ ’’تم نے تو کمال کر دیا ذاکر پاہ جی۔ ورنہ مجھے تو تمہیں مٹھوسنگھ کے پلپلے جسم کو چھلنی کرتے دیکھ کر ہی تمہاری سچائی کا یقین آتا‘‘۔
میں نے بھی جواباً ہنس کر کہا۔ ’’وہ تو بہت بعد کا مرحلہ ہے میرے بھائی۔ اس سے پہلے تو تم مجھے حاجت رفع کرنے کے لیے چارپائی سے اٹھتے دیکھ کر بھی پستول تھام لیتے۔ راستے میں تمہارے ساتھی بھی اپنے اصل دشمنوں کے بجائے مجھ پر نظریں جمائے رکھتے اور کسی بھی غلط فہمی کی صورت میں بلاجھجک مجھے گولی سے اڑا دیا جاتا۔ کسی ویرانے میں چیل کوے میری لاش نوچ رہے ہوتے اور کتے، گیدڑ اور لومڑیاں دعوت اڑاتے۔ ادھر کشمیر میں میرے بھائی انتظار کرتے رہ جاتے‘‘۔
یہ سب کہتے کہتے میرا لہجہ بے ارادہ تلخ ہوگیا۔ سکھبیر نے شرمندہ لہجے میں کہا۔ ’’او بھائیا، مانتا ہوں مجھے اتنا شکی رویہ نہیں رکھنا چاہیے تھا۔ تم نے جوکچھ بتایا اس کے بعد مجھے اعتبار کرلینا چاہیے تھا۔ اب تو میرے بھائیوں جیسا جگری یار ہے۔ مجھے عادت سے مجبور سمجھ کر غصہ تھوک دے‘‘۔
میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’مجھے تجھ پر کوئی غصہ نہیں ہے یار۔ میں تمہاری مجبوری سمجھتا ہوں‘‘۔
اس دوران میں وہ اپنا پستول دوبارہ تکیے کے نیچے رکھ کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کا ارادہ بھانپ کر میں بھی اٹھا اور ہم دونوں نہایت گرم جوشی سے بغل گیر ہوئے۔ اس نے شاید اپنی خفت مٹانے یا غیر ارادی طور پر اپنا زور دکھانے کے لیے مجھے بہت زور سے بازوؤں میں بھینچا تھا۔
سکھبیر نے مجھے اپنے پاس بٹھا لیا۔ اب اس کی گفتگو کا انداز ہی بدل گیا تھا۔ اس نے ستائش بھرے لہجے میں کہا۔ ’’ذاکر بھائیا، واہگرو کی سوگندآج تم نے میری عقل گھماکے رکھ دی ہے۔ میں خود کو دنیا کا سب سے بڑا سورما نہیں سمجھتا۔ اس لیے ہاتھا پائی، زور آزمائی میں ہار جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ لیکن جو داستان تم نے گھڑی ہے اور پھر جس بھرپور انداز میں سناکر مجھے سرکاری ایجنٹ ہونے کا یقین دلایا ، یہ سب میرے بس کی بات نہیں ہے۔ میں تو تمہیں اپنا گُرو ماننے پر مجبور ہو گیا ہوں‘‘۔
میں نے شرمندہ ہوکر کہا۔ ’’ایسا نہ کہو سکھبیر بھائی۔ میں کوئی مہارشی تھوڑی ہوں۔ بس جوسمجھ میں آیا، کر گزرا۔ یہ صرف اوپر والے کی کرم نوازی ہے کہ میں اپنی کوشش میں کامیاب رہا۔ ورنہ معاملہ الٹنے میں دیر ہی کتنی لگتی ہے۔ ذرا سا بھی ہاتھ اوچھا پڑجاتا تو تم میری چھاتی پر سوار ہوجاتے اور میں قیامت تک اپنی سچائی کا یقین نہ دلا پاتا‘‘۔
سکھبیر نے کہا۔ ’’چلو جو بھی ہوا، اچھا ہی ہوا۔ اب ہم پوری بے فکری سے آپس میں تعاون کا معاملہ آگے بڑھا سکیں گے۔ میں اب تمہیں اپنے ان بڑوں سے بھی ملواؤں گا، جن سے پہلے ہرگز ملوانے کا نہ سوچتا‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’اب میں بھی پورے اعتماد کے ساتھ اپنے ساتھیوں کو تمہارے پاس بھیجوں گا۔ بلکہ ہو سکتا ہے اب وہی تم لوگوں کے ساتھ معاملات آگے چلائیں۔ کیونکہ مجھے تو اپنے چکروں میں ہندوستان کے چپے چپے کی خاک چھاننی پڑتی ہے‘‘۔
سکھبیر نے کہا۔ ’’ہاں، ہاں، ضرور۔ تمہاری طرح وہ بھی ہمارے لیے عزت کے لائق ہوں گے۔ اور ہاں، اب مجھے تمہاری سچائی آزمانے کی ضرورت نہیں ہے۔ جی چاہے تو مٹھو سنگھ والا مشن ختم کر دو‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نہیں بھائی۔ تم لوگوں سے ملاقات ہوتی یا نہ ہوتی۔ اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر یا اکیلے، مٹھو سنگھ نامی اس شیطان کا بوجھ زمین کے سینے پر سے مجھے ہلکا کرنا ہی تھا‘‘۔
سکھبیر نے کہا۔ ’’بس تو پھر یہ پستول اپنے قبضے میں لے لو۔ آج ہی یہ بھلا کام نمٹا دیتے ہیں‘‘۔
بتیس بور کا کولٹ پستول میرے حوالے کرتے ہوئے سکھبیر نے آواز دے کر شیر دل سنگھ کو بلایا، جو فوراً ہی حاضر ہوگیا۔ ’’یار یہ بتاؤ، وہ مہتاب سنگھ کب تک پہنچ جائے گا؟ یاد ہے ناں ہمیں مٹھو سنگھ سے پرانا حساب چکانے ترن تارن جانا ہے؟‘‘۔
شیر دل نے سینے پر ہاتھ مار کر کہا۔ ’’یہ کوئی بھولنے والی بات ہے سکھبیر بھائیا؟ مہتاب سنگھ سویرے ہی آگیا تھا۔ جیپ کی ٹینکی فل کروانے کے بعد اب اپنی ٹینکی فل کر رہا ہے۔ میں بھی ناشتا کر چکا ہوں۔ بس جیسے حکم کرو، نکل چلتے ہیں‘‘۔
سکھبیر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’میرے شیر، کیا ذاکر بھائیا اور مجھے ناشتا نہیں کرانا ہے؟ اور ہاں۔ اب ان کا چوکی
پہرہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ اب ہر طرح سے بھروسے لائق ساتھی ہیں‘‘۔
شیر دل سنگھ نے کہا۔ ’’یہ تو بڑی خوشی کی بات ہے بھائیا جی۔ بس دو چار منٹ اور انتظار کرلو، میں گرما گرم ناشتا لاتا ہوں‘‘۔
سکھبیر نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ اتنی دیر میں تم دونوں تیار ہوجاؤ۔ دو ایم کے تھری، دو شاٹ گن اور چوکھی گنتی میں ایمونیشن رکھ لینا۔ اور ہمارے چھوٹے ہتھیاروں کی بھی چالیس پچاس گولیاں پہنچا دو۔ واہگرو جانے کن حالات کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ مٹھو سنگھ بہت زور آور بلا کا نام ہے، اور ہم تو اس کی کچھار میں گھس کر اسے مار گرانے جا رہے ہیں‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭