ترتیب و پیشکش
ڈاکٹر فرمان فتحپوری
ایک طرف تو علامہ نیاز فتح پوری قمر زمانی کے نام سے لکھ رہے تھے۔ دوسری طرف دلگیر کے ولولوں کو تازہ رکھنے اور قارئین نقاد کو قمر زمانی کے عورت ہونے کا ثبوت فراہم کرنے کی غرض سے ’’نقاد‘‘ کے قلمی معاونین کی فہرست میں نئی خواتین کے نام شامل کروا رہے تھے۔ ان ناموں کے پس پردہ مولانا خود ہی تھے۔ ’’پژمردہ کلی کا جواب‘‘ کے بعد ’’اے مخلوق محترم ترین‘‘ دیکھئے۔ وہ کہکشاں کے نام سے چھپا تھا۔ یہ ثریا کے نام سے شائع ہوا ہے۔ اس پر بھی دلگیر کا ادارتی نوٹ اس طور پر ملتا ہے۔
’’یہ لطیف مضمون بھی صنف نازک کے ایک فرد کا لکھا ہوا ہے، جسے ہم شکریہ کے ساتھ بجنسہ شائع کرتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ آئندہ بھی نقاد کے صفحات ان پاکیزہ خیالات سے محروم نہ رہیں گے۔
’’دلگیر‘‘۔
اس کے بعد مضمون شروع ہوتا ہے۔ اسے دیکھتے چلئے:
’’اے مخلوق محترم ترین‘‘
مدتیں گزر گئیں۔ زمانہ ہوگیا۔ مگر یہ راز بدستور ہی رہا کہ جو فضیلت اور رتبہ انسان کو میسر ہوا ہے۔ کیا وہ اسی کا حصہ ہے۔ اس نے فرشتوں سے بھی بازی جیت لی۔ لیکن کیا اس نے اپنے اس اعزاز اور امتیاز کی کبھی کچھ قدر و منزلت بھی کی ہے۔ نہیں۔ واللہ انسان بڑا سرکش ہے۔
کیا یہ اپنے بائیں پہلو میں تڑپنے والے سیماب پر ہاتھ رکھ کر یہ نہیں دیکھ سکتا کہ وہ کن کن آفات میں مبتلا ہے اور اس کی زندگی کس کش مکش سے ملتفت ہے۔ زندگی، آہ کیا فنا ہونے والا لفظ ہے۔ اگر تجھے نظر غور سے دیکھا جائے تو تو موت سے کہیں بدتر ہے۔ وائے زندگی، تو شب و روز اپنا قیمتی وقت مختلف بکھیڑوں میں گزار دیتی ہے۔
اے انسان۔ نہیں نہیں، تو اس مقدس القاب کے لائق نہیں ہے۔ بلکہ اے مشت خاک۔ تو کیوں اپنا وقت کائنات آفرین کے ذکر میں نہیں گزازتا کہ اس پاک اور نیک تذکرہ سے تبری عاقبت بے خبر ہے۔ نہیں تو ان مقدس رسومات کا عادی نہیں۔ تجھ سے التجا کرنا بے کار ہے۔
دنوں گزر گئے اور مجھے انہیں تفکرات نے پریشان رکھا کہ انسان کس برتے پر اپنی قوم کو تمام اقوام پر ترجیح دیتا ہے۔ اس کی فضیلت کا کیا ثبوت ہے۔ آپ غور کریں گے تو معلوم ہوگا کہ دنیا میں جس قدر برائیاں ہیں، وہ انہیں ذات مقدس کی بدولت ہیں۔ خیر سے حسنات بھی ان میں موجود ہیں، لیکن کم۔
اے وجود سرکش، تیرے قلب میں غرور ہے۔ اور تو حرص و تمنا کا پتلا بنا ہوا ہے۔ جس کو بجائے آزر کے نشترِ سرکسی نے تراشا ہے۔ اف۔ تو باوجود سیر ہونے کے بھی خود غرض کا بندہ بنا ہوا ہے۔ حیف تیری اس غلامی پر۔
اے رب العجائب کی ایک حقیر و ناچیز مخلوق، کیا تو بھی اپنے معبود کی پرستش کرتی ہے اور کیا تو بھی اس کی عبادت میں سرگرم و مشغول رہتی ہے۔ میں جانتی ہوں تیرے پاس اس کا جواب نفی میں ہے۔
اے خود بین، دیکھ کون سی عبادت سے بری ہے۔ آہ عبادت تو پتھر، کنکر، روڑے، نباتات، جمادات بھی بجا لاتے ہیں۔ پانی تسبیح و تہلیل میں مشغول ہے۔ آگ سجدے میں ہے۔ پہاڑ سرنگوں ہیں ، چٹانیں رو رہی ہیں۔ لق و دق جنگل دعا مانگ رہے ہیں۔ الغرض ہر مخلوق خوف خالق سے سر بسجو و لرزاں ہے۔ پھر کیا سبب ہے کہ اے ناداں انسان، تو غافل اور سرمستِ نشاط نظر آتا ہے۔
افسوس۔ انسان کے سوا اور کون مخلوق ہے جو اپنے رب
سے انکار کرنے کی جرأت کرے۔ آپ ہی بتاتے اور کون دہریہ ہے اور کون فلسفہ اور سائنس کے زور پر خدائی کاموں کو اتفاقات سے تعمیر کرتا ہے۔ اور کون ہے جو احکامات زبانی سے منحرف ہے۔
یہ اسی ناشکرے کا حوصلہ ہے کہ باوجود بے پایاں الطافِ صمدی اور اکرامِ سرمدی کے کبھی شکر گزار نہیں ہوتا۔ ہمیشہ شاکی ہی رہتا ہے اور اپنی ناچیز ہستی کے گھمنڈ پر خدا کی طاقت ور ہستی کو فراموش کر دیتا ہے ۔ معاذاللہ۔
جس تہذیب پر اس کو ناز ہے، وہ سوائے اس کے کیا ہے کہ اس نے اپنی زندگی کو سادگی سے علیحدہ کر کے عمیق پیچیدگی میں لا ڈالا ہے۔
اے مخلوق متحرم ترین،
غالباً تجھے اس بات پر فخر ہوگا کہ فنا اور بقا میں تیری اور اقوام دیگر کے یہ فرق ہے کہ تجھ کو فنا نہیں اور دوسری قوموں کو بقا نہیں۔ مگر اپنی اخلاقی حالت مجھ سے سن۔ ایک مذہب والا دوسرے مذہب والے سے فساد کر رہا ہے۔ بہشت و دوزخ کے مناقشوں میں انسانیت کا خاتمہ ہو رہا ہے۔ حشر اجساد یا حشرا رواح سے پہلے ہی ایک حشر برپا ہے۔ کیا تو اسی ہستی ناپائیدار پر اترا رہا ہے اور سمجھتا ہے کہ کبھی فنا نہ ہوگا۔
دیکھ، اب بھی وقت ہے اور استغفار کہلا ہوا ہے۔ خدا کے قہر و غضب سے ڈر اور توبہ کر۔ اے ہوس کے بندے، اے غرض کے پتلے۔
’’سچ یہ ہے کہ خلوص و محبت تجھ میں نام کو نہیں‘‘۔
یہ کہہ کر میں رخصت ہوتی ہوں اور میں مٹ جانے کے لئے تجھے تنہا چھوڑے دیتی ہوں۔
’’ثریا‘‘
جولائی کے نقاد میں ایک اور مختصر سا مضمون آخری صفحے پر چھپا ہے۔ اس کے نیچے ’’فرقت نصیب بلقیس‘‘ لکھا ہوا ہے۔ لیکن ہے یہ بھی نیاز فتح پوری کا، بلقیس کا نام فرضی ہے۔ اس مضمون کا عنوان ہے ’’مجھ مہجور کی عید‘‘۔ اس میں ایک ایسی عورت کے جذبات کا اظہار ہے، جو عید کی خوشی کے موقع پر اپنے محبوب سے دور ہے اور فراق کی زندگی بسر کر رہی ہے۔
اصل مضمون یہ ہے:
’’مجھ مہجور کی عید‘‘
ایک سال کے کٹھن انتظار کے بعد، بارہ مہینے کی ناقابل برداشت جدائی کے بعد میں رمضان شریف کے آنے کے انتطار میں دل تھامے ہوئے، آنکھیں بچھائے ہوئے بیٹھی تھی۔ خدا خدا کر کے چاند دیکھا۔ آنکھوں کو ٹھنڈک، دل کو سکھ ہوا کہ اب کی عید میری زندگی کا سہارا بننے والی تھی۔ اب یہ بے صبری تھی کہ اللہ یہ مہینہ کب ختم ہوگا اور عید کا چاند دونی مسرت لئے ہوئے میرے کاشانہ غم کی تاریکی دور کرنے اور میرے سیہ خانہ میں روشنی پھیلانے کب نمودار ہوگا۔
’’عیدین‘‘ ہاں میری دو عیدین ہوں گی۔
ایک عید جو دنیا کی عید ہے۔ اور دوسری عید جو صرف میری، ہاں ’’عید‘‘ میری ہے، وہ میرے… کی دید ہوگی۔ سب سے بڑھ کر عید تو اس فرقت زدہ کی ہی تھی اور ہوتی، مگر میں اپنی قسمت کو کیا کروں، جس نے میرے ساتھ دغا کی، مجھے دھوکا دیا۔ میری خوشی اس سے دیکھی نہ گئی۔ میری حسرتوں کی صبح سے پہلے ہی شام ہو گئی۔ میرے ارمانوں کا خون ہوگیا۔ میری زندگی موت سے بدتر ہوگئی۔
’’وہ چلے گئے‘‘
کسی کے تڑپنے کا ’’انہیں‘‘ خیال تک نہ آیا۔ کس کو روتا چھوڑ کر، مجھے حیرت ہے ’’ان‘‘ کے قدم آگے کس طرح بڑھے۔ کوئی ان کے فراق میں مرے یا جئے، انہیں اس کی پرواہ نہیں۔
اف آج سے صرف ایک ہفتہ عید میں باقی رہ گیا، مگر دنیا کی عید کے لئے۔ نہ کہ مجھ مہجور کی، مجھ غم زدہ کی۔ ہائے مجھ مہجور کی اصلی اور سچی ’’عید‘‘ خدا جانے کب ہوگی۔ جس روز میرے مالک کو مجھ پر ترس آئے گا، اسی روز میری ’’عید‘‘ ہے۔ اے تڑپنے والے دل۔ تیری بے قراری سے توقع تھی۔ تیری جاذب و کشش سے امید تھی کہ تو آنے والے عید کے چاند کے ساتھ میرے ’’چاند‘‘ کو بھی دکھا دے گا۔ ہمیشہ کے لئے مجھے ملا دے گا۔ آہ۔
سب خاک ہوئیں آج مرے دل کی امیدیں
کل تک تو تری ذات سے کیا کیا نہ یقین تھا
میری پامال حسرتو، جاؤ۔ میرے خون شدہ ارمانو، رخصت ہو۔ اب اس مایوسی و نامراد دل میں تمہارا کچھ کام نہیں۔ میں بھی اس دنیا کو جلد چھوڑنے والی ہوں۔
اے جامع المتفرقین۔ تیرے آگے کوئی بات محال نہیں۔ تو اس بے کس کے لئے خوشی کا سامان مہیا کر یا پھر موت دے۔ قصہ پاک کر
’’فرقت نصیب بلقیس‘‘
پچھلے صفحوں میں دلگیر کا خط مرقومہ 22 جون اور اس کے جواب میں قمر زمانی کے خطوط مرقومہ 28 جون اور یکم جولائی نقل کئے جا چکے ہیں۔ اس کے بعد مسودات میں دلگیر کا کوئی خط نہیں آتا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭