پرائیویٹ اسکولوں میں غیرنصابی سرگرمیوں کے نام پر بھی لوٹ ٹمار

عظمت علی رحمانی
نجی تعلیمی ادارے غیر نصابی سرگرمیوں کے نام پر بھی لاکھوں روپے بٹور رہے ہیں۔ فیئر ول پارٹیز کے نام پر نویں اور دسویں کلاسوں کے طلبا سے 2 ہزار روپے فی طالب علم وصول کئے جاتے ہیں۔ گرین ڈے، یلو ڈے، فروٹ ڈے اور ویجی ٹیبل ڈے سمیت مختلف ایام کے نام پر بھی ایونٹ منعقد کراکر والدین پر اضافی مالی بوجھ ڈالا جاتا ہے۔ محکمہ تعلیم کی جانب سے ٹھوس بنیادوں پر تا حال کارروائی نہیں کی جاسکی ہے۔
ملک بھر کے لاکھوں نجی تعلیمی اداروں نے ذریعہ تعلیم کو مکمل طورپر کمرشل کر دیا ہے۔ حکومت اور محکمہ ایجوکیشن کی غفلت کے باعث پرائیویٹ تعلیمی اداروں بالخصوص نجی اسکولوں میں والدین اور طلبہ کو باقاعدہ ’’گاہک‘‘ کے طور پر ٹریٹ کیا جاتا ہے۔ یہی سبب ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے حکم دیا گیا ہے کہ نجی اسکولوں کی فیسوں میں نمایاں کمی کی جائے۔ تاہم عدالتی حکم پر اب تک عملدرآمد نہیں کیا گیا۔ شہر میں بڑی چین رکھنے والے اسکول گروپس نے ٹیکس سے بچنے کیلئے پرانی فائلوں اور نئی درخواستوں کے ذریعے سوسائٹی کے بجائے ٹرسٹ کے اسکول ظاہر کرنا شروع کر دیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر عدالتوں کے حکم کے باوجود نہ صرف اسکول کی تعلیمی ٹیوشن فیسوں میں کمی نہیں کی گئی، بلکہ گزشتہ برس کی جون یا جولائی کی فیسیں بھی واپس نہیں کی گئی ہیں۔ دوسری جانب اسکولوں کے مالکان کی جانب سے طلبہ سے داخلوں کی مد میں سالانہ بھاری فیسیں بھی وصول کی جا رہی ہیں، جو فی طالب علم ایک لاکھ 70 ہزار روپے تک بھی جاتی ہے۔ طلبہ سے جنریٹر کی مد میں بھی فیس وصول کی جاتی ہے، جو کم از کم 500 روپے مہینہ سے لیکر 2 ہزار روپے تک ہے۔ سیکورٹی کی مد میں بھی طلبہ اور والدین سے فیسیں لی جاتی ہیں۔ سالانہ چارجز کے نام پر علیحدہ سے فیس مقرر ہے۔ جس کے بارے میں کوئی بھی اسکول تسلی بخش جواب دینے سے قاصر ہوتا ہے۔
ادھر شہر میں قائم 80 فیصد اسکولوں میں پلے گرائونڈ کی سہولت ہی نہیں۔ جبکہ اکثر اسکول گلی محلوں میں 80 گز، 120 گز اور 200 گز کے پلاٹوں پر مشتمل ہیں۔ ان اسکولوں میں اسمبلی اور پی ٹی کیلئے گرائونڈ نہیں ہوتا۔ جس کی وجہ سے طلبہ کو قومی ترانے اور دعائیں تک یاد اچھی طرح یاد نہیں ہو پاتیں۔ نجی اسکولوں کی جانب سے یونیفارم اور مونو گرام کے نام پر بھی کمیشن لیا جاتا ہے۔ 80 فیصد نجی اسکولوں کی جانب سے اپنے مونو گرام کے نام پر کاپیاں بھی خود ہی تیار کروائی جاتی ہیں، جن کی قیمتیں عام بازار سے زائد ہوتی ہیں۔ تاہم والدین کو یہ خریدنی ہوتی ہیں، کیونکہ انہوں نے بچے کو اسی اسکول میں تعلیم دلوانی ہوتی ہے۔ معلوم رہے کہ تعلیمی سال کے دوران ہر دوسرے ہفتے طلبہ کو حکم دیا جاتا ہے کہ کل گرین ڈے ہے۔ اس روز سب نے گرین رنگ کا سوٹ پہن کر آنا ہے۔ گرین کلر والے فروٹس بھی لانے ہیں۔ دیگر اشیا بھی گرین ہی منگوائی جاتی ہیں۔ دو ہفتے بعد یلو ڈے کے نام پر اسی رنگ کا لباس اور اسی رنگ کے پھل فروٹ وغیرہ طلب کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ سال بھر اسی نوعیت کے اخراجات کے بعد دسویں کلاس کے طلبہ کے اعزاز میں الوداعی پارٹی دی جا تی ہے، جس کو فیئرول کا نام دیا گیا ہے۔ فیئر ول کے نام پر نویں اور دسویں کے ہر طالب علم سے 1500 روپے سے 2000 روپے وصول کئے جاتے ہیں۔ دی ایجوکیٹرز اسکول کی جانب سے نویں کلاس کے طلبہ سے 2 ہزار اور دسویں والوں سے 18 سو روپے وصول کئے جارہے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر جن طلبہ سے 1800 اور 2000 روپے وصول کئے جارہے ہیں، انہیں پک اینڈ ڈراپ کی سہولت بھی نہیں دی جارہی۔ اس حوالے سے اکثر والدین کی جانب سے شکایتیں کی جارہی ہیں کہ انہیں نجی اسکولوں نے اپنا گاہک بنا لیا ہے۔ آئے روز کوئی نہ کوئی نیا نام استعمال کرکے پیسے لئے جاتے ہیں۔ وحید خان تنولی کا کہنا ہے کہ ان کے بچے ڈیفنس میں زیر تعلیم ہیں۔ بچوں کو تعلیم دلوانے کے لئے اسکولوں کے نہ ماننے والے احکامات بھی ماننے پڑتے ہیں۔ گرین ڈے، یلو ڈے اور فروٹ ڈے جیسے کئی اقدامات ہیں جو بے معنی ہیں۔ مگر اسکول والے کراتے ہیں۔ عرفان اعوان کا کہنا ہے کہ ان کا بیٹا محمود آباد کے نجی اسکول میں 8 ویں کلاس میں پڑھتا ہے۔ اس کی ٹیوشن فیس کے علاوہ داخلہ فیس، سیکورٹی فیس اور جنریٹر فیس تک لی جاتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے جب اسکول پڑھا تھا تو گرائونڈ میں صبح سویرے اسمبلی ہوتی تھی، جو اب شاید ہی ہوتی ہو‘‘۔ لانڈھی سرفراز اکیڈمی کے مالک راجا محمد فیاض کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے گرین ڈے سمیت کوئی بھی ایسی ایکٹوٹی اسکول میں نہیں رکھی، جس سے والدین یا طلبہ پر مزید مالی بوجھ پڑے۔ کیونکہ ہم ایسے علاقوں میں اسکول چلا رہے ہیں جہاں رہنے والے ہماری ہی طرح متوسط طبقے کے لوگ ہوتے ہیں۔ جبکہ اس طرح کی غیر نصابی سرگرمیاں کرانے اور مالی فوائد حاصل کرنے والے اسکول پوش علاقوں میں بڑی بڑی برانچز والے اسکول ہوتے ہیں‘‘۔ معلوم رہے کہ سالانہ چارجز ادا نہ کرنے والے طلبہ کو امتحان میں نہیں بیٹھنے دیا جاتا۔ اگر امتحان میں کسی نہ کسی طرح بیٹھنے کی اجازت دے بھی دی جائے تو ایسے طلبہ کا نتیجہ روک لیا جاتا ہے۔ ملک میں تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث والدین پہلے ہی سفید پوشی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ جبکہ اسکول کی فیسوں میں ہر سال اضافے سے ان کے گھریلو اخراجات پر مزید منفی اثرات پڑتے جارہے ہیں۔
ڈائریکٹر جنرل پرائیویٹ انسٹیٹیوشن ڈاکٹر منسوب حسین صدیقی کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے فیسیوں میں کمی کیلئے اسکولوں کو ہدایات جاری کی ہیں۔ اس کے بعد بھی اگر کوئی اسکول فیس میں کمی نہیں کر رہا تو ہم سے والدین رجوع کریں۔ ہم ایسے اسکولوں کے خلاف کارروائی کریں گے۔ ہم نے اپنی ٹیمیں تشکیل دے رکھی ہیں کہ وہ اسکولوں میں وزٹ کریں اور وہاں پر ایسی کسی بھی چیز کا نوٹس لیں، جس کی وجہ سے والدین پر مالی بوجھ بڑھایا جارہا ہو‘‘۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment