سلطان صلاح الدین ایوبیؒ کی فوج عیسائی فوجوں سے ٹکر لے رہی تھی، دشمنوں کے جوان، بوڑھے، عورتیں سبھی میدان جنگ میں نکل پڑے تھے اور جنگ جاری تھی، ادھر مسلمانوں کی فوج کے خیمے لگے ہوئے تھے اور یہ لوگ پوری بہادری کے ساتھ دشمنوں کا مقابلہ کر رہے تھے۔
اس جنگ کی ایک رات کا واقعہ ہے، جب کہ ہر طرف سناٹا چھا چکا تھا اور صلاح الدینؒ اور ان کے ساتھی سو چکے تھے کہ اچانک ایک عورت عیسائیوں کے خیمے سے چیختی پکارتی ہوئی، فوج اور پہرے داروں کے درمیان سے گزرتی ہوئی مسلمانوں کے خیمے تک پہنچی، جہاں اس کو فوج کے افسر نے روک لیا اور پوچھا: ’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘
اس نے پوری قوت سے جواب دیا: ’’صلاح الدین کو تلاش کرتی ہوں، صلاح الدین کو۔‘‘
عورت کو صلاح الدینؒ کے پاس پہنچایا گیا تو وہ سو رہے تھے، ان کو لوگوں نے جگا دیا اور کہا کہ ایک مظلوم عورت آپ سے کچھ کہنے آئی ہے، اس وقت اسلامی لشکر کے تمام بڑے، بڑے سردار سو رہے تھے۔
صلاح الدینؒ نے ان سب کو جگا دیا اور عورت سے نہایت مہربانی اور نرمی سے ساتھ پوچھا: ’’کیا بات ہے؟‘‘
عورت رونے لگی اور پھر چیخ کر بولی کہ: ’’اے بادشاہ! آپ کی فوج سے مجھے سخت شکایت ہے۔‘‘
صلاح الدین کے چہرے کا رنگ اڑ گیا اور پوچھنے لگے: ’’میری فوج نے کیا کیا ہے؟‘‘
عورت نے جواب دیا: ’’کل آپ کے ان سپاہیوں نے میرے شوہر (لویس) کو گرفتار کر لیا تو میں نے کہا کہ چلو خدا کی راہ میں پکڑا گیا اور آج رات کو ابھی کچھ گھنٹے پہلے آپ کی فوج کے کچھ ڈاکو میرے محبوب بچے کو اڑا لے گئے، یہ بچہ میری تسلی کا سامان تھا اور اپنے باپ کی گرفتاری کے بعد میرا سب کچھ وہی تھا، اس وقت میں آپ سے صرف اپنے اس پیارے بچے کو چاہتی ہوں، ورنہ آپ خیال رکھئے کہ اس فوج کی ساری حرکتوں اور کاموں کے ذمہ دار آپ ہی ہیں اور پھر جوش میں کہنے لگی:
’’اے کافرو! میں اپنے بچے کو تم سے مانگ رہی ہوں، اپنے بچے کو؟‘‘
عورت کا مزاج دیکھ کر اور اس کی باتیں سن کر صلاح الدینؒ خاموش ہو گئے اور فوج کو حکم دیا کہ فوراً لشکر، چھائونیوں اور اس کے قریب کی جگہوں سے اس عورت کے بچے کو تلاش کر کے لائیں۔
تھوڑی دیر کے بعد فوج والے کچھ اجنبی ڈاکوؤں کو پکڑ کر لائے، جو بچے کو لے گئے تھے، عورت بچے کو دیکھ کر اچھل پڑی اور اس کو اپنے سینے سے چمٹا لیا اور اس کے چہرے کا بوسہ لینے لگی اور محبت کے گرم، گرم آنسو اس کی آنکھوں سے نکل کر بچے کے رخسار پر گرنے لگے۔
اب عورت کو سکون حاصل ہو چکا تھا اور وہ صلاح الدین کی طرف متوجہ ہو کر شکریہ ادا کرنے لگی، لیکن صلاح الدین نے تھوڑی دیر کے لئے اس سے مہلت چاہی اور اس کے قیدی شوہر کو طلب کر کے اسی وقت اس کو رہا کر دیا اور کہا: جاؤ! اپنے سرداروں سے ہمارے متعلق کہہ دو کہ ہم ظالم اور سرکش نہیں، بلکہ ہم رحم کرتے ہیں، ہم لڑائی کرنے اور تباہی پھیلانے کے لئے نہیں پیدا کئے گئے، بلکہ ہمارا مقصد امن اور سلامتی قائم کرنا ہے، ہمارا دین اتفاق سکھاتا ہے، دلوں کو آپس میں ملاتا ہے، بھائیوں کے درمیان پھوٹ نہیں پیدا کرتا اور نہ ان کے دلوں میں کینہ و عداوت کا بیج ڈالتا ہے، اپنے ان بڑے سرداروں سے کہہ دو کہ ہم اسی اخلاق کی بدولت کامیاب ہوں گے اور یہی دین ہماری فتح کا پیش خیمہ ہے۔‘‘
صلاح الدین یہ کہہ کر اٹھنے والے ہی تھے کہ یہ دونوں میاں بیوی پورے جوش و خروش کے ساتھ یہ نعرہ بلند کرنے لگے کہ تمہارے یہاں رحم و انصاف ہے اور ہمارے پاس سخت دلی اور ظلم ہے اور پھر کہا کہ ہم کو بھی آپ اس رحمت اور انصاف کی فوج میں داخل کر سکتے ہیں؟
صلاح الدین نے کہا کہ کلمہ طیبہ پڑھو اور اس کلمہ پر اپنے دل سے ایمان لاؤ۔
دونوں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور یہ دونوں میاں بیوی مسلمانوں کی چھاؤنی میں اپنے خیمہ کی طرف جا رہے تھے اور کلمہ طیبہ برابر ان کی زبان پر جاری تھا اور فضا مسلمانوں کے نعرئہ تکبیر سے گونج رہی تھی۔
٭٭٭٭٭