تثلیث سے توحید تک

ڈاکٹر امینہ کاکسن کا مزید کہنا تھا کہ… اس میں کوئی شبہ نہیں کہ میں تلاشِ حق میں بڑی پریشان اور مضطرب تھی، تاہم یہ بھی خیال آتا تھا کہ مجھے اپنے آبائی مذہب سے دور نہیں ہونا چاہیے… لیکن متذکرہ خوابوں نے جس منزل کی طرف اشارہ کیا، وہ راستہ اسلام کا تھا۔ میری مسلمان مریضوں نے میرے دل میں اسلام کے لیے مزید نرم گوشہ پیدا کر دیا، بالخصوص ان کا یہ عقیدہ کہ سب کچھ خدا کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت ضرور ہوتی ہے، جب کہ اس کے برعکس یورپ میں لوگ ہر اچھے کام کا کریڈٹ خود لیتے ہیں، جب کہ برے انجام کو خدا سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔
اس سلسلے میں، میں بالخصوص اومان کے سلطان قابوس السعید کی والدہ محترمہ سے بے حد متاثر ہوئی۔ محترمہ میری مریضہ تھیں۔ ضعیفی اور صحت کی خرابی کے باوجود وہ ہر ایک سے مسکرا کر ملتیں اور ہر ضرورت مند پر کھلے دل سے دولت نچھاور کر دیتیں۔ وہ شدید تکلیف میں مبتلا تھیں، لیکن انہوں نے کبھی بھی شکوہ و شکایت کا انداز اختیار نہ کیا، بلکہ بات بات پر وہ خدا تعالیٰ کا شکرادا کرتیں… اور جب میں پوچھتی کہ بیماری کی انتہائی تکلیف میں کون سی چیز انہیں اطمینان اور امید سے وابستہ کیے ہوئے ہے؟ تو وہ احترام اور محبت کے گہرے احساس سے خدا تعالیٰ کا نام لیتیں کہ وہ وہی ذات گرامی ہے، جس کا فضل و کرم انہیں مایوس نہیں ہونے دیتا۔ وہ کمال یقین کے ساتھ فرماتیں: خدا تعالیٰ ’’رحمان اور رحیم‘‘ ہے، وہی انسان کی طرح طرح کی نعمتوں سے نوازتا ہے اور وہی کسی حکمت کے تحت تکلیف سے دوچار کرتا ہے۔ میں اس کی رضا پر راضی ہوں اور اپنی تکلیف سے پریشان نہیں ہوں۔
واقعتاً سلطان قابوس کی والدہ محترمہ ایک مثالی مسلمان خاتون تھیں… انہوں نے مجھے اسلام کے بہت قریب کر دیا، اگرچہ تین واضح خواب دیکھنے کے باوجود میں ابھی تک اپنے آپ کو قبولِ اسلام پر آمادہ نہ کر پائی تھی، لیکن رمضان آیا تو میں موصوفہ محترمہ کی ترغیب پر روزے رکھنے لگی اور پہلی بار سچے روحانی سکون سے آشنا ہوئی۔
ایک سال اسی طرح گزر گیا۔ دوسرا رمضان آنے والا تھا کہ کویت کے ایک مسلمان خاندان سے میرا تعارف ہوا۔ یوسف الزواوی، سربراہ خانہ، بہت بیمار تھا، لیکن خدا پر مریض اور باقی خاندان کا یقین و ایمان دیکھ کر میں دنگ رہ گئی۔ یہ لوگ بھی حوصلہ مندی، صبر و استقامت، محبت اور خلوص کا بہت خوبصورت نمونہ تھے۔ مغربی گھرانوں کے برعکس، سب ایک دوسرے پر جان چھڑکتے اور سربراہ خانہ کی صحت یابی کے لیے کوئی دقیقہ اٹھا نہ رکھتے…
میں نے اپنے پیشے کے تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے مریض کا خاص خیال رکھا، اس کی وہ خوب قدر افزائی کرتے… ایک روز ممنونیت کا اظہار کرتے ہوئے یوسف الزواوی نے کہا ’’میں آپ کی خدمت اور احسانات کا شکریہ کیسے ادا کروں؟ جی چاہتا ہے کہ ساری دولت آپ کے قدموں میں ڈھیر کر دوں… جی چاہتا ہے کہ آپ کو اپنی بہو بنالوں، آپ کو اپنے گھر کا فرد بنا لوں۔‘‘
’’لیکن میں تو ان سے بھی زیادہ قیمتی چیز کی طلب گار ہوں۔‘‘ میں نے جواب میں تجسس پیدا کیا۔
’’ وہ کیا؟‘‘ یوسف اور اس کا سارا خاندان پریشان ہوگیا۔ ’’آپ مجھے مسلمان بنا لیجئے، اپنے دین میں شامل کر لیجئے۔‘‘
میری بات سن کر اس گھرانے کا عجیب حال ہوا۔ خوشی سے ان کی چیخیں نکل گیئں۔ یوسف کی آنکھیں بے اختیار چھلک بڑیں اور سب لوگ مسرت کے غیر معمولی احساس سے نہال ہوگئے… دوسرے دن میں نے کلمہ طیبہ پڑھا اور ایک مسلمان کی حیثیت سے رمضان المبارک کے سارے روزے رکھے، نمازوں میں ذوق و شوق سے شرکت کی… خدا کا شکر کہ مجھے میری منزل مل گئی، ایک گرا ہوا انسان اٹھ کر کھڑا ہو گیا اور اندھیروں میں بھٹکتی ہوئی روح روشن، صاف سیدھی شاہراہ پر آگئی۔
سوچتی ہوں کہ خدا تعالیٰ کے احسان عظیم کا شکر کیسے ادا کروں؟ وہ زبان کہاں سے لاؤں، جو اس کی حمد و ثنا کرے؟ (جاری ہے)

٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment