ایک دن حضرت جنید بغدادیؒ اپنے پیر و مرشد شیخ سری سقطیؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عجیب منظر دیکھا۔ ایک شخص خانقاہ میں بے ہوش پڑا تھا اور حضرت سری سقطیؒ اس کے قریب حیران و پریشان بیٹھے تھے۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے فکر مندانہ لہجے میں عرض کیا: ’’آخر اس شخص کو کیا ہوا ہے کہ یہ اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے؟‘‘
حضرت سری سقطیؒنے فرمایا: ’’میں نے اس کے سامنے قرآن حکیم کی ایک آیت تلاوت کی، جسے سنتے ہی یہ بے ہوش ہوگیا۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے عرض کیا: ’’آپ وہی آیت دوبارہ تلاوت کیجئے۔ یہ شخص ہوش میں آجائے گا۔‘‘
حضرت سری سقطیؒ نے بڑی حیرت کے ساتھ اپنے مرید اور بھانجے کی طرف دیکھا۔ پھر با آواز بلند وہی آیت مقدسہ تلاوت کی۔ چند لمحوں بعد وہ شخص ہوش میں آگیا۔ حضرت سری سقطیؒ کو اس بات پر تعجب ہوا، مگر آپ اجنبی کی موجودگی میں خاموش رہے۔ پھر جب وہ شخص چلا گیا تو آپ نے حضرت جنید بغدادیؒ سے پوچھا: ’’تمہیں یہ تدبیر کس طرح معلوم ہوئی؟‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے بصد احترام عرض کیا: ’’حضرت یوسفؑ کے پیرہین مبارک سے حضرت یعقوبؑ کی بینائی چلی گئی تھی اور پھر اس کرتے سے آپ کی آنکھوں کی روشنی بحال ہوگئی تھی۔‘‘
حضرت سری سقطیؒ کو حضرت جنید بغدادیؒ کا یہ جواب بہت پسند آیا۔
دراصل یہ اس تاریخ ساز واقعے کی طرف اشارہ تھا، جب حضرت یوسفؑ کے بھائیوں نے آپؑ کو ایک کنویں میں پھینک دیا تھا اور آپؑ کے پیرہن مبارک کو کسی بھیڑ بکری کے خون سے رنگیں کر کے حضرت یعقوبؑ کے سامنے پیش کردیا تھا کہ یوسفؑ کو بھیڑیا اٹھا کر لے گیا اور یہ خون آلود پیرہن ان کی نشانی ہے۔‘‘
حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے محبوب فرزند کے پیرہن کو آنکھوں سے لگائے دن رات روتے رہتے تھے۔ یہاں تک کہ آپ آنکھوں کی روشنی سے محروم ہوگئے۔ پھر جب کئی سال بعد حضرت یوسف علیہ السلام سخت ترین آزمائشوں سے گزر کر مصر کے بادشاہ بنے تو آپؑ کے تمام بھائیوں نے حاضر ہو کر اپنے گناہ کی معافی مانگی۔
حضرت یوسفؑ نے بھائیوں کو معاف کرنے کے بعد حضرت یعقوبؑ کا حال دریافت کیا تو معلوم ہوا کہ وہ بیٹے کے غم میں روتے روتے اپنی بینائی گنوا چکے ہیں۔ یہ جانگداز خبر سن کر حضرت یوسفؑ بہت آزردہ ہوئے۔ پھر اپنا پیرہن مبارک اتارکر بھائیوں کو دیا۔ جب حضرت یعقوبؑ نے بیٹے کا کرتا آنکھوں سے لگایا تو گم شدہ بینائی لوٹ آئی۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے اسی واقعے کی روشنی میں حضرت سری سقطیؒ کو مشورہ دیا تھا کہ جس آیت کے سننے کے بعد وہ شخص بے ہوش ہوا ہے، اسی آیت کو سن کر دوبارہ ہوش میں آجائے گا۔ یہ حضرت جنید بغدادیؒ کے کشف اور ذہانت کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔
اب حضرت جنیدبغدادیؒ معرفت کے اس درجے پر پہنچ گئے تھے کہ استاد گرامی حضرت سری سقطیؒ بھی بعض مسائل میں آپؒ سے مشورہ لیا کرتے تھے اور شاگرد کی رائے کو اپنی رائے سے افضل قرار دیا کرتے تھے۔
ایک دن آپؒ پیرو مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت سری سقطیؒ کو نہایت متفکر پایا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے سبب پوچھا تو پیرو مرشد نے فرمایا:
’’ جنید! کچھ دیر پہلے ایک نوجوان میرے پاس آیا تھا۔ اس نے پوچھا ’’ شیخ! توبہ کے کیا معنی ہیں؟‘‘
میں نے کہا:’’ توبہ کے معنی یہ ہیں کہ انسان اپنے گناہوں کو نہ بھولے۔‘‘
نوجوان نے بے ساختہ کہا:’’ شیخ! آپ کا جواب غلط ہے۔‘‘
میں نے حیران ہو کر پرچھا:’’ آخر تم یہ بات کس طرح کہہ سکتے ہو؟‘‘
نوجوان نے بڑے پر یقین لہجے میں بولا:’’ توبہ تو یہ ہے کہ انسان اپنے گناہوں کو یکسر فراموش کردے۔‘‘
یہ کہہ کر وہ چلا گیا۔ میں اسی وقت سے پریشان ہوں کہ نوجوان کے اور میرے جواب میں نمایا فرق ہے۔‘‘
پیرو مرشد کی گفتگو سن کر حضرت جنید بغدادیؒ نے عرض کیا: ’’اس میں تشویش اور فکر کی کیا بات ہے؟ میرے نزدیک تو وہ نوجوان ہی سچ کہتا تھا۔‘‘
حضرت سری سقطیؒ نے بڑی حیرت سے اپنے شاگرد کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا: ’’ جنید! تم اس نوجوان کی تائید میں کوئی دلیل بھی رکھتے ہو؟‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے عرض کیا:’’ شیخ محترم! صفائی کے وقت غبارکا خیال رکھنا بھی غبار ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ کا جواب اس قدر منطقی تھا کہ حضرت سری سقطیؒ نے بلا تامل اسے قبول کر لیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭