پاکستان عالمی عدالت کے فیصلے کو ماننے کا پابند نہیں

وجیہ احمد صدیقی
پاکستان عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کو ماننے کا پابند نہیں ہے۔ وزارت خارجہ سے تعلق رکھنے والے معتبر ذریعے نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ اگر عالمی عدالت پاکستان سے کل بھوشن یادیو کی پھانسی کی سزا کو عمر قید میں تبدیل کرنے کے لئے کہتی ہے تو یہ پاکستان کی کامیابی ہوگی۔ اس لیے کہ یورپی ممالک میں پھانسی کی سزا ختم کردی گئی ہے اور عالمی عدالت انصاف اسی تناظر میں یہ فیصلہ دے سکتی ہے۔ لیکن چونکہ پاکستان نے سزائے موت ختم کرنے کے کسی کنونشن پر دستخط نہیں کیے ہیں، اس لیے وہ اس فیصلے کو تسلیم کرنے کا پابند نہیں ہے۔ دوسری جانب عالمی عدالت سے اس قسم کے کسی فیصلے کا مطلب یہ ہوگا کہ عالمی عدالت انصاف نے کل بھوشن کو مجرم تسلیم کرلیا ہے۔ چونکہ پاکستان عالمی عدالت کے ایسے کسی فیصلے پر عملدرآمد کا پابند نہیں، جو پاکستان کے اپنے قوانین کے خلاف ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے دائرہ کار کو بھی اس مقدمے میں چیلنج کیا ہے۔ تازہ سماعت میں اسی حوالے سے دلائل بھی دیئے جائیں گے۔ جبکہ بھارت نے عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا تھا کہ کل بھوشن یادیوکو پاکستان نے ایران سے اغوا کیا تھا۔ جہاں وہ انڈین نیوی سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد تجارت کے سلسلے میں مقیم تھا۔ پاکستان نے کل بھوشن تک بھارتی قونصلر کو رسائی نہ دے کر ویانا کنونشن 1963 کی خلاف ورزی کی ہے۔ بھارت ابھی تک عالمی عدالت انصاف میں کل بھوشن کی بھارتی بحریہ سے ریٹائرمنٹ کاکوئی ثبوت نہیں پیش کرسکا۔ عالمی عدالت انصاف بھارتی جاسوس کل بھوشن یادیوکے مقدمے پر 18 فروری کو سماعت کا آغاز کرے گی۔ پاکستان نے مقدمے کی تیاری مکمل کر لی ہے۔ ذرائع کے مطابق وکیل خاور قریشی مقدمہ لڑیں گے۔ وزارت خارجہ اور قانون کے اعلیٰ حکام کا وفد ہیگ، ہالینڈ پہنچے گا۔ اس میں اٹارنی جنرل بھی شامل ہوں گے۔ عالمی عدالت انصاف میں سپریم کورٹ پاکستان کے سابق چیف جسٹس، جسٹس تصدق حسین جیلانی ایڈہاک جج ہیں، جو جیوری میں شامل ہوں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے عالمی عدالت 18 سے 21 فروری تک 4 روز مقدمہ کی سماعت کرے گی۔ مقدمہ میں 18 فروری کو بھارت، جبکہ 19 فروری کو پاکستان اپنے دلائل دے گا۔ عالمی عدالت میں 20 فروری کو بھارت اپنا جواب دے گا۔ جبکہ پاکستان، بھارت کے دلائل کے جواب میں اپنے دلائل 21 فروری کو دے گا۔ پاکستان، عالمی عدالت انصاف کے دائرہ اختیار پر بھی دلائل دے گا، کیونکہ پاکستان کا موقف ہے کہ عالمی عدالت انصاف جاسوسی کے مقدمات کی سماعت نہیں کرسکتی۔ بھارت کو عالمی عدالت سے کمانڈرکل بھوشن کی بریت، رہائی یا وطن واپسی کا فیصلہ نہ ملا تو پاکستان کی جیت ہو گی۔ عالمی عدالت انصاف کو کل بھوشن یادیو کو قونصلر رسائی دینے یا نہ دینے کا فیصلہ بھی کرنا ہے اور اسی پر مقدمے کا انحصار ہے۔ عالمی عدالت 3 سے 4 ماہ میں حتمی فیصلہ سنا سکتی ہے۔ امکان ہے کہ مئی یا جون میں اس مقدمے کا فیصلہ ہوجائے گا۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بھارت کی جانب سے کل بھوشن کی مدد بھارت کے اپنے گلے پڑ سکتی ہے۔ اگر بھارت کل بھوشن کی سزا ختم کروانے میں کامیاب ہوگیا تو پاکستان اسی مقدمے کو مثال بنا کر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مقدمہ لے کر عالمی عدالت میں پہنچ سکتا ہے۔ خود بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج مرکنڈے کاٹجو نے کہا تھا کہ بھارت نے کلبھوشن یادیو کا کیس عالمی عدالت لے جاکر سنگین غلطی کی۔ اس عمل سے پاکستان کو مسئلہ کشمیر عالمی عدالت لے جانے کا موقع فراہم کیا گیا۔ بھارت کی سپریم کورٹ کے سابق جج نے بھارتی جاسوس کلبھوشن کا کیس عالمی عدالت لے جانے پر مودی حکومت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ کل بھوشن کا معاملہ عالمی عدالت لے جانا بھارت کی سنگین غلطی ہے۔ کیس عالمی عدالت لے جانے پر پاکستان خوش ہوگا۔ بھارت عالمی عدالت کے بارے میں بیک وقت دو مؤقف نہیں اپنا سکتا۔ ایک شخص کی خاطر تنازعات کا پنڈورا باکس کھول دیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے کل بھوشن کے مقدمے کے حوالے سے حقائق نامہ جاری کیا ہے۔ جس میں پاکستان نے کل بھوشن یادیو کے خلاف ثبوت کے حوالے دیئے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کے پاس کل بھوشن یادیو کا وہ بھارتی پاسپورٹ بھی ہے جو اسے مسلمان نام سے جاری کیا گیا۔ اس سے بھارت کا یہ موقف مسترد ہوتا ہے کہ کل بھوشن ایران میں تجارت کررہا تھا۔ بھارت کی جانب سے اس طرح کا پاسپورٹ جاری کرنا ازخود عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ پاکستان نے عالمی عدالت میں بھارتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے حقائق نامے میں کہا ہے کہ کل بھوشن یادیو بھارتی بحریہ کا حاضر سروس افسر ہے۔ وہ عام قیدی نہیں اور اس پر ویانا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔ کل بھوشن کوئٹہ اور کراچی سمیت پاکستان کے دیگر شہروں میں دہشت گردی کو فروغ دیتا رہا ہے۔ اس کے پاکستان میں دہشت گردوں سے واضح تعلقات کے ثبوت موجود ہیں۔ کل بھوشن یادیو کا تعلق بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ سے ہے، جس کا وہ خود اقرار کر چکا ہے۔ وہ اپنا کوڈ نام حسین مبارک پٹیل استعمال کرتا تھا۔ پاکستان نے اسے صفائی کا پورا موقع دیا اور اسے پاکستانی قوانین کے مطابق سزا دی گئی۔ حاضر سروس بھارتی آفیسر کا پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونا انتہائی خوفناک اور بھیانک ہے۔ اس کے باوجود پاکستان نے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر کل بھوشن کی بیوی اور والدہ کو اس سے ملاقات کی اجازت دی۔ حقائق نامے میں مزید کہا گیا کہ پاکستانی ریاست کو حق پہنچتا ہے کہ اپنے شہریوں کے تحفظ کیلئے اقدامات کرے۔ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف کے پچھلے مقدمات کے فیصلوں کا حوالہ بھی دیا، جن میں امریکا اور دیگر ممالک کے مقدمات کے حوالہ جات شامل ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment