سپرلیگ کو درپیش خطرات سے نمٹنے کے لئے پی سی بی متحرک

قیصر چوہان
اماراتی سرزمین میں پاکستان سپر لیگ فور کو سٹے سے درپیش خطرات سے بچانے کیلئے پی سی بی متحرک ہوگیا ہے۔ صرف لیگ کے ابتدائی پانچ میچوں پر ریکارڈ جوا کھیلا گیا ہے۔ جبکہ کالا دھن چھاپنے کیلئے مختلف ممالک کے بکیوں کے گٹھ جوڑ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کو فکر مند کر دیا ہے۔ دوسری جانب آئی سی سی نے بھی پی ایم او ایریاز کی نگرانی بڑھادی ہے۔ اسی طرح دبئی میں لیگ کی حفاظت کیلئے تیعنات پی سی بی کے7 انٹیگریٹی آفیسرز ٹیم مالکان کی بھی نگرانی میں مصروف ہیں۔ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ میچ کے دوران موبائل فون کے استعمال پر لاہور قلندرز کے مالک کی سرزنش کی گئی ہے۔ جبکہ انٹیگریٹی آفیسر نے ٹیم آفیشلز کو بھی واچ لسٹ میں شامل کرلیا ہے۔ ادھرکراچی اورلاہور سمیت پاکستان کے مختلف شہروں میں لیگ میں دھڑا دھڑ جوا جاری ہے۔
’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق بکیوں کی جانب سے پی ایس ایل کے ابتدائی سات میچوں کیلئے کھولے گئے ریٹ کی ایکوریسی انتہائی قریب ترین رہی۔ یہی وجہ ہے کہ سٹوریوں کو پہلے پانچ میچوں میں اسپاٹ فکسنگ اور میچ فکسنگ کے ذریعے بڑے پیمانے پر منافع حاصل ہوا۔ ذرائع نے بتایا کہ لاہور اور کراچی کے چھوٹے بڑے بکیوں نے وہی ریٹ فالو کیا، جو دبئی میں موجود بھارتی نیٹ ورک نے مقرر کئے۔ ابتدائی پانچ میچوں میں فکسنگ کا حجم پانچ ممالک میں لگ بھگ 26 ملین ڈالر رہا، جو پاکستانی 70 کروڑ روپے بنتا ہے۔ بکیوں کی جانب سے اس ’’سپر چھکے‘‘ نے پاکستان کرکٹ بورڈ کے چھکے چھڑا دیئے ہیں۔ جس کے بعد پاکستان کرکٹ بورڈ سپر لیگ کو سٹوریوں کی پہنچ سے دور رکھنے کیلئے مزید چوکس ہو گیا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان کرکٹ بورڈ نے گرائونڈ میں تعینات انٹیگریٹی آفیسرز کو کھلاڑیوں، کوچز، میچ آفیشلز، ٹیم اونرز اور ان کے عزیر و اقارب کی نگرانی بڑھانے اور سختیاں برتنے کی ہدایت جاری کردی ہے۔ ’’ایمرجنسی‘‘ قوانین کے تحت چوتھے ایڈیشن میں شریک ٹیموں کے مالکان کو میچز کے دوران غیر ضروری نقل و حرکت سے روک دیا گیا ہے۔ جس کے تحت اونرز میچ کے دوران اسٹیڈیم سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ساتھ ہی انہیں موبائل فون استعمال کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ پی ایس ایل میں کوئی بھی فرنچائز مالک اور اس کے رشتے دار انٹیگریٹی آفیسر کی اجازت کے بغیر ڈگ آئوٹ اور ڈریسنگ روم میں نہیں بیٹھ سکتے۔ اجازت کیلئے اونرز کو 24 گھنٹے پہلے تحریری اجازت طلب کرنا ہوگی۔ ذرائع کے بقول افتتاحی میچ میں لاہور قلندرز کے مالک اور منیجر رانا ثمین کو ڈگ آئوٹ میں فون استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ ان دونوں کو انٹیگریٹی آفیسر کی جانب سے وارننگ بھی جاری کی گئی۔ رانا فواد نے ایک دن پہلے میٹنگ میں شرکت کی اور رانا ثمین کو اس بات کا علم نہیں تھا کہ وہ فون استعمال نہیں کر سکتے۔ اسی طرح ہر دو دن بعد کرپشن کے حوالے سے کھلاڑیوں اور آفیشلز کو لیکچرز دیئے جارہے ہیں۔ ذرائع کے مطابق کھلاڑیوں اور آفیشلز کو غیر متعلقہ افراد سے دور رہنے کی ہدایت کرنے کے ساتھ ساتھ کسی بھی غیر متعلقہ شخص کے رابطہ کرنے پر فوری طور پر اینٹی کرپشن یونٹ کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ لیکچر میں تمام ٹیموں کے کھلاڑیوں کو داؤد نامی بکی سے دور رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے اس کی تصویر بھی دکھائی گئی ہے۔ اسی طرح انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کی اینٹی کرپشن ٹیم بھی پاکستان سپر لیگ کے تمام میچز کی نگرانی اسٹیڈیم میں بیٹھ کر رہی ہے۔ ان اہلکاروں کو پلیئرز مینجمنٹ اینڈ آفیشل ایریاز (پی ایم او) میں مکمل رسائی حاصل ہے، جو کسی وقت بھی اس ایریاز میں داخل ہوکر صورت حال کا جائزہ لے سکتے ہیں۔ آئی سی سی کی اسپیشل ٹیم کھلاڑیوں اور انتظامیہ کی باڈی لینگویج کا باریک بینی جائزہ لے رہی ہے۔ آئی سی سی کا اینٹی کرپشن اسکواڈ پی سی بی کو جواب دہ نہیں۔ اگر کوئی کھلاڑی یا آفیشلز کرپشن میں ملوث پایا گیا تو مذکورہ ٹیم براہ راست آئی سی سی کو رپورٹ کرے گی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ایم او ایریاز میں غیر ضروری افراد کی موجودگی کی اطلاعات بھی ملی ہیں۔ جس کے حوالے سے آئی سی سی نے بورڈ کو آگاہ بھی کیا۔ ذرائع کے مطابق پاکستانی اور غیر ملکی کھلاڑیوں کو اس بار دبئی، شارجہ اور ابوظہبی میں ہوٹل کانرڈ میں ٹھہرایا جارہا ہے۔ جبکہ دیگر اسٹاف کیلئے الگ فلور مختص ہیں۔ ہوٹل میں کھلاڑیوں کی نگرانی کیلئے دو اہلکار مامور کئے گئے ہیں۔ کسی بھی آفیشلز کو ان کی اجازت اور ان کی موجودگی کے بغیر ملنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ کھلاڑیوں کو شاپنگ کیلئے لیگ کے اختتام کے بعد ہی اجازت ہوگی۔ یہی اہلکار ہوٹل، اسٹیڈیم سمیت ہر مقام پر پلیئرز کے ہمراہ جائیں گے۔ کسی بھی مشکوک سرگرمی کے حوالے سے کرنل آصف محمود کو فوری رپورٹ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ دوسری جانب پی ایس ایل کے میچوں پر پاکستان کے بڑے شہروں میں اربوں روپے کا جوا پولیس اور بااثر سیاسی شخصیات کی زیر سرپرستی کھیلا جا رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان میں سٹہ مافیا کی سرپرستی انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کے سابق عہدیدار اور انڈیا کے انڈر ورلڈ ڈان اور انڈین کرکٹ بورڈ کے سابق عہدیدار کر رہے ہیں۔ پاکستان میں سب سے زیادہ جوا کراچی، حیدرآباد، لاہور، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ، ملتان، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ میں کھیلا جا رہا ہے۔ ان شہروں میں چھوٹی اور بڑی بکیں کھلی ہوئیں ہیں، جو لندن، ممبئی اور دبئی سے نکلنے والے ریٹ کو فالو کرتی ہیں۔ جبکہ سکھر، بہاولپور، بہاولنگر، خانیوال، ساہیوال، بورے والا، وہاڑی، ڈی جی خان، بھکر، قصور، میانوالی، جھنگ، گجرات، جہلم، ایبٹ آباد، مانسہرہ اور مردان وغیرہ میں چھوٹے بک میکرز اپنی مرضی سے ریٹ نکالتے ہیں۔ سٹے کے اس غیر قانونی کاروبار کو روکنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ناکام ہو گئے ہیں۔ اس ناکامی کی وجہ بعض حلقوں میں انڈر ورلڈ مافیا، سیاستدان اور صنعتی شخصیات کی اثر اندازی ہے، جو اپنی بلیک منی کو ڈبل کرنے کیلئے بھارتی سٹہ مافیا سے مسلسل رابطوں میں ہیں۔ پی ایس ایل کے میچوں پر پاکستان میں 8 ہزار سے زائد چھوٹی بڑی بکیں چل رہی ہیں۔ ذرائع کے بقول بھارتی بک میکرز کیلئے دبئی میں موجود ’’را‘‘ کے ایک اہم اہلکار نے اسی ہوٹل میں قیام کا بندوبست کیا ہے جس میں پی ایس ایل میں شریک ٹیموں کو ٹھہرایا گیا ہے۔ بکیز ہر چار اوورز کے اختتام پر فیگر بک کرتے ہیں۔ پانچ اوورز کے اختتام پر کلی اور جوٹا کے نام سے بھی فیگر بک کر کے جوا کھیلا جاتا ہے۔ آئوٹ ہونے پر اور چوکے اور چھکے لگے گا یا نہیں؟ اس پر بھی جوا لگتا ہے۔ اس کے علاوہ سب سے زیادہ جوا ٹاس پر کھیلا جاتا ہے۔ ذرائع کے مطابق لاہور شہر میں تقریباً سات ہزار کے قریب افراد جوئے کے دھندے میں ملوث ہیں۔ چھوٹے بک میکرز کے کارندے پانچ سو روپے کا جوا بھی بک کر لیتے ہیں اور پھر ان چھوٹی چھوٹی رقم کو اکٹھا کر کے کسی بڑے بک میکر کے پاس لگا دیتے ہیں۔ ان چھوٹے بک میکرز کے کارندوں کو 7 فیصد کمیشن ملتا ہے۔ ذرائع کے مطابق ایک سیاسی شخصیت کے بھائی نیا مزنگ کے علاقے رسول پارک میں کارپوریشن والی ڈسپنسری کے ساتھ اپنے ڈیرے پر کرکٹ، گھوڑا ریس اور کبوتروں پر جوئے کی بک چلاتی ہے۔ مزنگ، اچھرہ اور سمن آباد کے علاقے میں لیاقت اور مجاہد نامی افراد اس کے کارندوں کے طور پر کام کرتے ہیں۔ ڈیفنس سے ملحقہ علاقے سپر ٹائون میں واحد بٹ نامی شخص بک چلاتا ہے۔ ملک اکبر نامی شخص اس کی معاونت کرتا ہے۔ شمالی لاہور کے معروف علاقے شاد باغ میں خورشید بھیا اور سندھو بک چلاتے ہیں۔ جبکہ شاد باغ کی اسکیم نمبر 2 میں چوہدری لطیف پہلوان اپنی بک چلاتا ہے۔ مصری شاہ میں حاجی ایوب جس کا انتقال ہو چکا ہے، اس کا بیٹا بک چلا رہا ہے۔ مصری شاہ میں ہی عبدالرزاق عرف جاکا پہلوان اپنے دیگر ساتھیوں کے ہمراہ بک چلاتا ہے۔ بادامی باغ کے علاقے میں پیشے خان جو قتل ہو چکا ہے، اس کا بیٹا لالا سوہنی بک چلاتا ہے۔ لنڈا بازار میں لنڈا بازار تاجر ایسوسی ایشن کا ایک عہدیدار جو ماموں کی عرفیت سے مشہور ہے، بک چلاتا ہے۔ اس کوسیاسی شخصیات اور پولیس کے اعلیٰ عہدیداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ باغبان پورہ کے علاقے کا سابق ناظم میاں بابر بک چلاتا ہے۔ علامہ اقبال ٹائون کے کریم بلاک میں محبوب احمد نامی شخص بک چلاتا ہے۔ اس شخص کی گاڑیوں کا شو روم بھی ہے۔ شاد باغ کے علاقے میں الیاس، رضا بٹ اور عاطف چھوٹی بکیں چلاتے ہیں۔ سبزہ زار کے علاقے میں چھوٹو نامی شخص بک چلاتا ہے۔ کریم پارک کے علاقے میں افضال عرف جالا اور اس کے بھائی اقبال نے جوئے کی بک کھول رکھی ہے۔ ذرائع کے مطابق لاہور کے بڑے بک میکرز اپنے خاص کارندوں کو بڑے ٹورنامنٹس کے موقعوں پر ’’فینسی فکسنگ‘‘ کیلئے بھجواتے ہیں۔ ادھر کراچی کے مضافاتی علاقوں سمیت پوش علاقوں میں بھی باقاعدگی سے جوا کھیلا جا رہا ہے۔ جبکہ کال سینٹرز، کراچی کے مختلف منی ایکسچینج سٹے کے کاروبار کو کراچی میں طول دے رہے ہیں۔ بک میکرز کی منظم نیٹ ورکنگ کا اصل مرکز بھارتی شہر ممبئی ہے۔ جہاں کے بڑے سٹے باز دبئی، کراچی اور لاہور میں فعال بک میکرز سے مسلسل رابطوں میں ہیں۔ جو سٹے کے اتار چڑھائو کے حوالے سے کراچی میں موجود مختلف اداروں کو اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ کراچی کے علاقے گھاس منڈی، بغدادی، عزیز آباد، ڈیفنس، لانڈھی، پی آئی بی کالونی اور گلشن اقبال جوئے کے سب سے بڑے مراکز بن کر سامنے آئے ہیں، جہاں پی ایس ایل کے میچوں میں اربوں روپے کا جوا کھیلا جارہاہے۔ ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ رقوم کی غیر قانونی منتقلی میں ملوث منی ایکسچینج کمپنی کے علاوہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں متعدد خفیہ ٹھکانوں سے جوا کھیلا اور کھلایا جاتا ہے۔ جبکہ کراچی کے علاقے گھاس منڈی کے قریب بکیز نے متعدد فلیٹس اور گھر کرائے پر لے رکھے ہیں۔ جہاں وہ اپنی پردہ پوشی کیلئے معمول کے کرائے 5 تا 8 ہزار روپے کے بجائے 15 تا 20 ہزار روپے کرایہ دے کر کاروبار کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment