سیپ اور گھونگھوں کی معدومی سے ہزاروں گھرانوں کو فاقے کا خدشہ

اقبال اعوان
سندھ حکومت کی نا اہلی کے سبب سمندر آلودہ ہونے اور سیپیوں، گھونگھوں کے غیر قانونی بے دریغ شکار کے باعث خوبصورت سیپیاں اور گھونگھے ناپید ہونے لگے ہیں، جس کے باعث ان سے مختلف آرائشی اشیا بنانے والے ہزاروں دستکار بے روزگار ہو رہے ہیں۔ حکومتی اداروں کی عدم دلچسپی کے باعث ہنر مندوں کی تیار کردہ اشیا نہ صرف بیرون ملک نمائشوں میں نہیں بھیجی جاتیں، بلکہ اب انہیں لاہور، پشاور، ٹیکسلا، اسلام آباد اور مری میں بھی بھیجنے کا سلسلہ کم ہو چکا ہے۔ کلفٹن کے ساحل پر سیپیوں اور گھونگھوں سے تیار شو پیس، زیورات، فوٹو فریم، چھت سے لٹکانے والے جھومر، کھلونے اور دیگر اشیا محدود تعداد میں مل رہی ہیں۔ جبکہ دیگر 5 ساحلی تفریحی علاقوں سے ان کے اسٹالز ختم کر دیئے گئے ہیں۔ ’’امت‘‘ کی جانب سے کئے گئے سروے کے دوران دکانداروں کا کہنا تھا کہ قدرت نے سمندر کو بے شمار خزانوں سے نوازا ہے۔ گہرے پانیوں میں ایک الگ دنیا اپنا وجود رکھتی ہے۔ سمندری مخلوق انسان کی غذائی ضرورت پوری کرنے کا ایک بڑا ذریعہ ہے۔ ان میں ایسی مخلوق بھی ہیں، جو مرنے کے بعد بھی طویل عرصے تک اپنی خوبصورت بناوٹ اور خوش نما رنگوں کی وجہ سے گھریلو سجاوٹ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ ان میں سیپ، گھونگھا اور کوڑی کے علاوہ مختلف اقسام کے خول والے سمندری حشرات شامل ہیں۔ قدرت نے ان مختلف اقسام کے کیڑوں کی حفاظت کی خاطر ان کے جسم کے گرد ٹھوس خول بنائے ہیں۔ جب یہ خطرہ محسوس کرتے ہیں تو اپنا جسم اس ٹھوس حصے میں چھپا کر اپنی زندگی محفوظ کر لیتے ہیں۔ ان پر قدرت کی جانب سے کندہ ڈیزائن اور رنگ دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ کچھ ممالک میں ان خولوں میں موجود کیڑوں کو غذا کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ جبکہ کراچی میں سیپیوں، گھونگھوں کے غیر قانونی شکار کے بعد ان کے اندر سے کیڑے نکال کر بیرون ملک بھجوانے کا سلسلہ بھی جاری ہے۔
واضح رہے کہ کراچی کے ساحل پر واقع قدیم اسٹالز سیپیوں کے زیورات، ہیئر کلپ، فریم اور دیگر آرائشی اشیا کے حوالے سے مشہور ہیں۔ تاہم پانچ ساحلی علاقوں سے یہ اسٹال ہٹا دیئے گئے ہیں۔ جبکہ کلفٹن میں اب بھی لگ بھگ دس اسٹالز لگتے ہیں۔ جبکہ کسی زمانے میں یہاں پر ان اشیا کے 150 سے زائد اسٹال لگتے تھے۔ اس سلسلے میں ایک دکاندار عبدالشکور کا ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سمندری آلودگی اور بڑے پیمانے پر سیپیوں، گھونگھوں کے شکار نے اس کاروبار کو بہت نقصان دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ابراہیم حیدری اور دیگر ساحلی علاقوں میں قائم سیپیوں سے گوشت نکالنے کے کارخانے قائم ہیں جہاں کھلے سمندر میں شکار کرکے آنے والے ماہی گیر سیپیاں پہنچاتے ہیں۔ ان کارخانوں میں خولوں سے کیڑوں کا گوشت نکال کر ویت نام، فلپائن، تھائی لینڈ، چائنا اور کوریا پیک کرکے بھیجا جاتا ہے۔ ایک دکاندار جعفر کا کہنا تھا کہ چند سال قبل تک کراچی کے ساحل سیپیوں سے بھرے رہتے تھے۔ پانی کے ساتھ کوڑی، گھونگھے اور سیپیاں ساحل پر آجاتی تھیں، جنہیں تفریح کی غرض سے آنے والے چنتے تھے اور شوق سے گھر لے جاتے تھے۔ لیکن اب تو ساحلوں پر کچرے کے ڈھیر لگے ہیں۔ ایک دکاندار غلام رسول کا کہنا تھا کہ کراچی میں ماڑی پور، ابراہیم حیدری، ریڑھی گوٹھ، شیریں جناح کالونی، کیماڑی بھٹہ ویلج، اور مبارک ویلج میں سیپیوں اور گھونگھوں سے آرائشی اشیا بنانے والے کارخانے ہوتے تھے۔ اس کام سے وابستہ ہزاروں افراد میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے، تاہم اب وہ ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں۔ کراچی کے ساحلی علاقوں میں ڈیڑھ کلومیٹر تک سیپیاں اور گھونگھے ملا کرتے تھے۔ ان میں آنکھ والی سیپی، ڈابلہ سیپی، برما شیل سیپی، صدف سیپی، اور روزل سیپی سمیت دیگر اقسام کی سیپیاں نمایاں ہوتی تھیں۔ جان محمد دکاندار کا کہنا تھا کہ ان کے گھر پر35 سال سے یہ کام ہو رہا ہے۔ اب بمشکل 5 فیصد کام رہ گیا ہے۔ بیرون ملک سے آنے والے سیاح بھی یہ اشیا خریدتے تھے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو جہاں یہ ہینڈی کرافٹ نہ پہنچی ہو۔ دکاندار رفیق کا کہنا تھا کہ اب کلفٹن پر چند اسٹال ہی رہ گئے ہیں۔ صبح سے شام تک محنت کر کے بھی دو وقت کی روٹی کے پیسے نہیں نکلتے۔ دکاندار موتی لعل اور کرشن کا کہنا تھا کہ ان کا جدی پشتی کام اب معدوم ہونے کو ہے اور وہ کوئی دوسرا کام ڈھونڈ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment