نذرالاسلام چودھری/ محمد زبیر خان
پلوامہ حملے کو بنیاد بنا کر بھارت بھر میں ہندو غنڈوں نے کشمیری طالبات کو اغوا کرنا شروع کر دیا۔ واضح رہے کہ مودی سرکار کی سرپرستی میں دو روز سے ہندو انتہا پسند تنظیمیں بی جے پی، وشوا ہندو پریشد، بجرنگ دل اور آر ایس ایس کے غنڈے بہار، راجستھان، مہاراشٹر، اتر کھنڈ، مدھیا پردیش، اتر پردیش اور ہریانہ سمیت راجدھانی دہلی میں کشمیری دکانداروں، پارچہ سازوں، طلبا و طالبات اور دیگر کشمیری مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ مار پیٹ کے دوران ان کو واپس کشمیر چلے جانے کا کہا جارہا ہے۔ اس کے علاوہ ہریانہ اور راجستھان کے گرلز کالجز کے ہاسٹلوں میں مقیم تین کشمیری طالبات کے اغوا کی خبریں بھی آئی ہیں، جنہیں 48 گھنٹے گزر جانے کے باوجود آر ایس ایس کے غنڈوں سے بازیاب نہیں کرایا جاسکا تھا۔ دوسری جانب دہرہ دون کے ’’ڈولفن انسٹیٹیوٹ‘‘ کے ہاسٹل میں رہائش پذیر 20 کشمیری طالبات کو اغوا کرنے کیلئے 200 سے زیادہ ہندو دہشت گردوں نے حملہ کیا، جس پر کشمیری طالبات نے ہاسٹل انتظامیہ اور پولیس کو کال کی، لیکن کوئی مدد نہیں آئی۔ بعد ازاں کشمیری طالبات نے بھارتی سماجی کارکن شہلا رشید کو ٹیلی فون کر کے مدد کی اپیل کی۔ جس پر شہلا رشید نے مقامی پولیس اسٹیشن کے افسران کو وارننگ دی کہ اگر انہوں نے ایکشن نہ لیا تو وہ سول سوسائٹی اور میڈیا کو لے کر تھانے پہنچ رہی ہیں۔ ان کی یہ دھمکی کارگر رہی اور پولیس نے موقع پر پہنچ کر ہندو غنڈوں کو سمجھا بجھا کر واپس جانے پر راضی کرلیا۔ سماجی کارکن شہلا رشید نے سوشل میڈیا پر ہندو دہشت گردوں کے حملے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ کشمیری طالبات میں حد درجہ خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور بیشتر طالبات نے واپس کشمیر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ دہرہ دون انسٹیٹیوٹ میں زیر تعلیم کشمیری طالبہ اسما اشرف نے الجزیرہ کو بتایا کہ اس سنگین واقعے کے بعد انہوں نے اپنی عزت و جان کو لاحق خطرات کے سبب واپس کشمیر جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ہندوستان ٹائمز نے لکھا ہے کہ مختلف ریاستوں میں انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کشمیری عوام اور پاکستان کے خلاف پُر تشدد مظاہرے شروع کر دیئے ہیں، جن سے خوف زدہ سینکڑوں کشمیری خاندان اور طلبہ واپس کشمیر پہنچ چکے ہیں۔ دوسری جانب جموں میں مسلمانوں کی دکانوں، املاک اور گاڑیوں کو جلائے جانے کے بعد پہلے ہی ماحول کشیدہ ہے۔ سابق کشمیری وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے بھارت بھر میں کشمیریوں اور کشمیری طلبہ کیخلاف تشددکی شدید مذمت کرتے ہوئے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے خصوصی ملاقات کی ہے اور ان حملوں کی روک تھام کیلئے عملی اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔ نیو انڈین ایکسپریس نے تصدیق کی ہے کہ متعدد ریاستوں میں ہندو پنچایتی کمیٹیوں نے دیہات اور ضلعوں میں’’سرکلر‘‘ جاری کیا ہے کہ ان اضلاع و دیہات میں کسی بھی کشمیری کو رہائش یا کاروبار نہیں کرنے دیا جائے۔ کیونکہ کشمیری، بھارت دیش کے غدار ہیں۔ بھارتی صحافی لکشمی مہاراج نے بتایا ہے کہ ہریانہ کی مہارشی مارڈیشور یونیورسٹی میں زیر تعلیم 125 کشمیری طلبا کو جو انبالہ ضلع میں رہائش پذیر تھے، مقامی پنچایتی کمیٹی کی جانب سے رہائش گاہ چھوڑ دینے کا حکم دیا گیا ہے۔ پنچایتی کمیٹی کا کہنا ہے کہ کشمیری باشندے بھارت کے غدار ہیں۔ ادھر ریاست ہماچل پردیش میں مقامی انجینئرنگ کالج میں زیر تعلیم سیکنڈ ایئر سول انجینئرنگ کے کشمیری طالب علم تحسین گل کو پرنسپل نے گرفتار کروا دیا ہے۔ تحسین پر صرف اس لئے غداری کا مقدمہ درج کیا گیا کہ اس نے کشمیری حریت پسندوں کے خلاف نعرے لگانے سے انکار کیا تھا۔ ٹائمز آف انڈیا نے لکھا ہے دہرہ دون میں درجنوں کشمیری طلبا کو متعصب ہندوئوں نے حملوں میں تشدد کا نشانہ بنایا ہے۔ ریاست اتر کھنڈ میں بھی 6 مختلف کالجوں میں زیر تعلیم کشمیری طلبا کو قتل کی دھمکیاں دی گئی ہیں، جس سے کشمیری طلبا میں شدید خوف و ہراس پایا جارہا ہے اور سینکڑوں کشمیری طلبا نے تعلیمی سرگرمیاں ترک کردی ہیں۔ ریاست بہار سے شائع ہونے والے جریدے نیوز کلک نے تصدیق کی ہے کہ بہار کے متعدد اضلاع اور ریاستی دار الحکومت پٹنہ میں 100سے زائد کشمیری تاجروں اور دکانداروں کو ہندو انتہاپسند تنظیموں نے قتل اور لوٹ مار کی دھمکیاں دی ہیں اور ان کو کاروبار چھوڑ کر کشمیر چلے جانے کا حکم دیا گیا ہے۔ کشمیری دکانداروں بشیر احمد ڈار اور فیصل احمد نے میڈیا کو بتایا ہے کہ انہیں تھپڑ مارے گئے اور دکانوں سے سامان بھی لوٹا گیا۔ انہیں دھمکیاں دی گئی ہیں کہ بھارت میں کشمیریوں کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ڈیلی بھاسکر کی رپورٹ کے مطابق ہندو غنڈوں نے تین کشمیری دکانداروں مجید احمد، رئیس احمد اور عبدالباری کو تشدد کا نشانہ بنایا جن کو مقامی اسپتالوں میں طبی امداد دی جارہی ہے لیکن پولیس نے روایتی تعصب کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجرموں کے خلاف کوئی رپورٹ درج نہیں کی۔
دوسری جانب ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے حریت کانفرنس کے رہنما میر واعظ عمر فاروق کا کہنا تھا کہ فدائی حملے پر بھارتی منصوبہ سازوں کو سوچنا اور سمجھنا چاہیے کہ ظلم کرکے وہ امن قائم نہیں نہیںکرسکتے۔ انہوں نے بتایا کہ پلوامہ واقعے کے بعد کشمیریوں پر پورے بھارت میں عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے۔ بھارت کے مختلف شہروں میں کشمیری مرد و خواتین اور طالب علموں پر تشدد کیا جا رہا ہے اور گھروں پر حملے ہو رہے ہیں۔ اس صورت حال میں پاکستان پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم سے دنیاکو آگاہ کرے۔ اس ضمن میں جموں و کشمیر فریڈم موومنٹ کے نائب چیئرمین اور حریت کانفرنس کے ممبر ملک مجید کا کہنا تھا کہ بھارت بھر میں نہتے کشمیروں کو تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ان کی جان و مال محفوظ نہیں ہے۔ بھارتی سرکار کشمیریوں کی نسل کشی کر کے ان کو صحفہ ہستی سے مٹانا چاہتی ہے۔ ’’امت‘‘ کو بھارت کے مختلف علاقوں سے دستیاب اطلاعات کے مطابق اس وقت جموں اور بھارت کے مختلف شہروں میں مقیم کشمیری، ہندو انتہا پسندوں کے نرغے میں ہیں۔ سرکاری سرپرستی میں ان پر حملے جاری ہیں۔ راجھستان سے موصول اطلاعات کے مطابق وہاں کئی کمشیری طالبات کو پولیس نے غیر قانونی حراست میں لے رکھا ہے۔ ہماچل پردیش یونیورسٹی میں ہندو انتہا پسند غنڈوں نے کشمیری طالب علموں کے ہاسٹل کا گھیرائو کیا اور ان کے کمروں کے باہر اشتعال انگیز نعرے لگائے۔ نیشنل انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنس میں زیر تعلم تین کشمیری طلبا اور ایک طالبہ کو بغیر کوئی نوٹس دیئے یونیورسٹی سے نکال دیا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭