تثلیث سے توحید تک

امینہ لاکھانی کا مزید کہنا تھا کہ … اسلام وہ مکمل ضابطہ حیات ہے، جس میں انسانی زندگی کی پاکیزگی پر زور دیا جاتاہے، انفرادی زندگی کے حوالے سے بھی اور خاندانی زندگی کے اعتبار سے بھی… خصوصاً خدا کی نظر میں عورت کی خاص حیثیت ہے، جب کہ مغربی معاشرے میں یہ محض تجارتی اشتہار بازی کا آلہ ہے، چنانچہ اسلام میں عورت کے استحصال کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں۔ یہاں کاروباری مقاصد کے لئے نہ عورت کو بیچا جاتا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے اس کی توہین و تذلیل ہوتی ہے۔ چنانچہ اسلام کی پناہ میں آنے والی عورت کو سمجھ لینا چاہئے کہ خواتین کا اشتہار بازی کی خاطر نمود و نمائش میں حصہ لینا گناہ کبیرہ ہے اور انہیں آنکھیں بند کرکے گناہ کی اس وادی میں نہیں کود جانا چاہئے۔ انہیں احساس کر لینا چاہئے کہ وہ کھلونا نہیں، جنہیں نفس پرست لوگ جس طرح چاہیں استعمال کرتے پھریں۔ بلکہ وہ معاشرے کا نہایت ہی معزز اور محرم حصہ ہیں اور انہیں خاندانی اور معاشرتی زندگی میں بڑا ہی تعمیری کردار ادا کرنا ہے۔ اس حوالے سے اس پر بڑی ہی نازک ذمہ داری عائد کی گئی ہے، چنانچہ ایک مسلمان خاتون کو شراب، منشیات اور یورپین کلچر کی دیگر بد اخلاقیوں سے دور رہنا ہوگا۔ بدقسمتی سے ٹی وی، ریڈیو ، اخبارات اور فلم اور ڈرامے دن رات گناہ کی ترغیب دیتے ہیں کہ عیش و تفریح ہی اصل زندگی ہے اور شراب اور عورت ہی حصول مسرت کا بہترین ذریعہ ہیں، چنانچہ حالت یہ ہے کہ یورپ میں لوگ اپنے پڑوس میں ایسے شخص یا گھرانے کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے، جو ان کی عیش میں ممد و معاون نہیں بنتا۔ اس صورت حال میں صرف ایمان، حوصلہ مندی، استقامت اور نمازیں ہی ایک مسلمان کا سہارا بنتیں اور نیکی کے راستے پر اسے قائم رکھتی ہیں۔
ایک مسلمان خاتون کو دیگر خواتین کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط اور پر اعتماد ہونا چاہئے۔ اسے یقین ہونا چاہئے کہ وہ خوش نصیب ہے، جسے ایمان کی دولت میسر آگئی ہے، جب کہ باقی عورتیں بے چاری بد نصیب اور قابل رحم ہیں کہ اندھیروں میں بھٹک رہی ہیں۔ چنانچہ یورپ کے معاشرے میں آج مسلمان بن کر رہنا بہت بڑی ذمہ داری ہے، جسے اگر مناسب انداز میں انجام دیا جائے، تو خدا کی طرف سے خیرو برکت کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ اگر ایک مسلمان خاتون اپنے عمل و کردار سے، اپنے ایمان کامل اور یقین محکم سے کسی ایک عورت کو بھی اسلام کے حصار میں لے آتی ہے تو دنیا و آخرت کے نقطہ نظر سے یہ بہت بڑی خدمت ہوگی۔ خدا کا شکر ہے میں اس ماحول میں ایک مسلمان خاتون کا کردار ادا کرنے کی اپنی سی کوشش کررہی ہوں… خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نیکی پر کار بند رہنے اور بدی سے بچنے کی توفیق عطا فرما دے کہ دنیا و آخرت کی ساری کامیابی اسی میں مضمر ہیں ۔
لیڈی بارنس(انگلستان)
اس واقعے کی روایت… علامہ اقبالؒ نے کی ہے۔ یہ بصیرت افروز داستان علامہ مرحوم کی فرمائش پر لکھی جانے والی کتاب’’ اسلام زندہ باد‘‘ میں چھپی تھی اور وہیں سے نقل کی جا رہی ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبال نے بیان فرمایا: ’’مسٹر داؤد آپس‘‘ کی طرح لیڈی بارنس کا قبول اسلام بھی اپنے اندر عجب کے پہلو رکھتا ہے، آپ ایک نو مسلم فوجی انگریز کی بیوی تھیں۔ چند سال کا ذکر ہے۔ یہ دونوں میاں بیوی ایک مقدمے میں ملوث ہوکر میرے پاس آئے، چونکہ الزامات سراسر جھوٹے تھے۔ اس لئے عدالت نے انہیں باعزت بری کر دیا۔ چونکہ وکالت کے فرائض میں نے انجام دیئے تھے، اس لئے چند روز بعد لیڈی بارنس میرا شکریہ ادا کرنے کے لئے لاہور تشریف لائیں۔ اس وقت میں نے سوال کیا: لیڈی صاحبہ! آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کے اسباب کیا ہیں؟
’’مسلمان کے ایمان کی پختگی۔ ڈاکٹر صاحب‘‘ لیڈی موصوف نے جواب دیا اور وضاحت میں ایک واقعہ سنایا۔
’’ ڈاکٹر صاحب! میں نے دیکھا ہے کہ دنیا بھر میں کوئی بھی قوم ایسی نہیں جس کا مسلمانوں کی طرح ایمان پختہ ہو۔ بس اسی چیز نے مجھے اسلام کا حلقہ بگوش بنادیا‘‘ لیڈی بارنس نے تھوڑا سا تامل فرمایا اور کہا ’’ڈاکٹر صاحب! میں ایک ہوٹل کی مالکہ تھی، میرے ہوٹل میں ایک ستر سالہ بڈھا مسلمان ملازم تھا۔ اس بٖڈھے کا فرزند نہایت ہی خوبصورت نوجوان تھا۔ ایک وبائی بیماری میں یہ لڑکا چل بسا تو مجھے بے حد صدمہ ہوا۔ میں اس کی تعزیت کے لئے گئی، اسے تسلی دی اور دلی رنج و غم کا اظہار کیا۔ بڈھا نہایت غیر متاثر حالت میں میری باتیں سنتا رہا اور جب میں خاموش ہوگئی تو اس نے نہایت شاکرانہ انداز میں آسمان کی طرف انگلی اٹھائی اور کہا ’’میم صاحبہ! یہ خدا کی تقدیر ہے، خدا کی امانت تھی، خدا لے گیا، اس میں غمزدہ ہونے کی کیا بات ہے، ہمیں تو ہر حال میں خدائے غفور کا شکریہ ادا کرنا واجب ہے۔‘‘
ڈاکٹر صاحب! بڈھے کا آسمان کی طرف انگلی اٹھانا ہمیشہ کے لئے میرے دل میں پیوست ہوگیا۔ میں بار بار اس کے الفاظ پر غور کرتی تھی اورحیران تھی کہ الٰہی! اس دنیا میں اس قسم کے صابر، شاکر اور مطمئن دل بھی موجود ہیں۔ جستجو ہوئی کہ بڈھے نے ایسا پر استقامت دل کیسے پایا؟ اسی غرض سے میں نے پوچھا کہ کیا مرحوم کے اہل و عیال بھی ہیں؟ وہ کہنے لگا ’’ایک بیوی ہے اور ایک چھوٹا بچہ‘‘ بڈھے کے اس جواب نے میری حیرت کو کم کردیا۔ میں نے اس کے اطمینان قلب کی یہ تاویل کی کہ چونکہ پوتا موجود ہے، اس واسطے وہ اس کی زندگی اور محبت کا سہارا بنے گا۔
اس واقعہ کا زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ یتیم بچے کی ماں بھی چل بسی۔ اس سے میرے دل کو بہت تکلیف ہوئی۔ بڈھے کی بہو کا غم میری عقل پر چھا گیا۔ تعزیت کیلئے میں ان کے گاؤں روانہ ہوئی۔ اس وقت جذبات و تخیلات کی ایک دنیا میرے ہمرکاب تھی۔ سوچتی تھی اس تازہ مصیبت نے بڈھے کی کمر توڑ دی ہوگی۔ وہ ہوش و حواس کھو چکا ہوگا۔ یتیم کی کم سنی اسے نڈھال کر رہی ہوگی۔ میں انہی خیالات میں غلطاں بڈھے کے گھر پہنچی تو وہ سر جھکائے لوگوں کے ہجوم میں بیٹھا تھا۔ میں نے اس کی تازہ مصیبت پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے اپنی ہمدردی کا یقین دلایا۔ بڈھا میری ہمدردانہ باتیں بڑے سکون سے سنتا رہا، لیکن اس کے جواب کی نوبت آئی تو اس نے پھر اپنی انگلی آسمان کی طرف اٹھا دی اور کہا ’’میم صاحبہ! خدا کی رضا میں کوئی بشر دم نہیں مارسکتا۔ اسی کی شے تھی، وہی لے گیا ہے۔ ہمیں ہر صورت اس کا شکر ہی ادا کرنا چاہئے۔‘‘
’’ ڈاکٹر صاحب‘‘ لیڈی بارنس نے حد درجہ حیرت کے انداز میں کہا ’’میں جب تک بڈھے کا پاس بیٹھی رہی، نہ اس کے سینے سے آہ نکلی، نہ آنکھ سے آنسو گرا اور وہ اس طرح اطمینان کی باتیں کرتا تھا، گویا اس نے اپنے اکلوتے بیٹے اور بہو کو زمین میں دفن نہیں کیا، بلکہ کوئی فرض نماز ادا کی ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں واپس لوٹ آئی، مگر سارے راستے بڈھے کی پختگی ایمان پر غور کرتی رہی۔ یہ خیال مجھے تنگ کرتا تھا، حیرت زدہ بھی کہ اس درجہ مصیبت میں کسی انسان کو یہ استقامت اور صبر و شکر کی نعمت کیسے نصیب ہوسکتی ہے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment