سعادتِ اَبدی کی طرف رہنمائی

قرآن مجید وہ صحیفہ عظیم المرتبت اور کتاب مقدس ہے، جس میں اوامر ونواہی بھی ہیں اور واقعات و قصص بھی، معاملات بھی ہیں اور عبادات بھی۔ فضائل اسلام کی تفصیل بھی ہے اور معائب کفر و شرک کی وضاحت بھی، دنیوی زندگی کے فرائض بھی اس میں صراحت سے بیان کئے گئے ہیں اور بہ صورت انکار عالم آخرت میں جن نتائج و عواقب سے دوچار ہونا پڑے گا، اس کی بھی پوری تصریح کی گئی ہے۔ اعمال صالحہ اور کردار خیر پر جو جزا مرتب ہوگی، اس کا بھی ذکر ہے اور اعمال بد اور افعال قبیحہ کی سزا و عقوبت سے بھی آگاہ فرمایا گیا ہے، جنت کی مسرت آگیں حقیقت بھی اس میں مذکور ہے اور نار جہنم کی ہول ناکیوں سے بھی ڈرایاگیا ہے۔ حکومت و سلطنت کی بھاری بھرکم ذمہ داریوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے اور رعایا و محکوم سے حسن سلوک کی تاکید بھی کی گئی ہے۔ متعدد مقامات پر مخالفین کو تحدی بھی کی گئی ہے اور بارگاہ خداوندی میں تسلیم و رضا کا سر جھکانے والوں کو بشارت وخوشخبری سے بھی نوازا گیا ہے۔
چھوٹے بڑے معاملات، امیر و مامور سے تعلقات، راعی و رعیت سے رابطہ، غلام وآزاد سے مراسم، مسلم اور غیرمسلم سے میل جول، جنگ و جہاد کی نوعیت، غرض اسلوب حیات کے تمام گوشوں کا قرآن مجید میں کسی نہ کسی طریقے سے ذکر کیا گیا ہے۔ کوئی بات توضیح و تصریح سے بیان کی گئی ہے اور کوئی اجمال و اختصار کا پہلو لئے ہوئے ہے۔ بعض امور سے متعلق اشارات و کنایات پر اکتفا کیا گیا ہے اور ان اشارات و کنایات کا پیرایہ اظہار اس درجہ دل ربا و دل کشا ہے کہ اس میں فصاحت و بلاغت بھی ہے اور وہ تمام خوبیاں بھی بہ درجہ اتم اس میں سمٹ آئی ہیں، جو مخاطب کو اپنی طرف کھینچتی اور اس کے قلب و ضمیر پر اثر انگیزی کے نقووش مرتسم کرتی ہیں۔ (از: برصغیر میں اہل حدیث کی آمد، محمد اسحاق بھٹی صفحہ: ۱۶۲۔۱۶۳)
قرآن مجید کے طالب علم کا ذہن اس معاملے میں صاف ہونا چاہیے کہ ہم کو قرآن مجید سے کن امور میں رہنمائی کی ضرورت ہے؟ قرآن مجید کا موضوع اور اس کا عنوان کیا ہے؟ اس عقدے کے حل نہ ہونے کی وجہ سے اس راہ کے کتنے مسافر منزل مقصود سے محروم رہے، وہ سراب کو اپنی تشنہ لبی کا سامان سمجھے اور نتیجے میں حیرانی وپریشانی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آیا۔ اس حقیقت کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ قرآن مجید کی اصل دعوت انسان کو سعادتِ ابدی کی طرف بلانا ہے۔ وہ انسان کے ظاہر وباطن کی ایسی تعمیر کرنا چاہتا ہے کہ حیاتِ اخروی میں اس کو کوئی زحمت پیش نہ آئے۔ وہ انسان کا ایسا تزکیہ کرنا چاہتا ہے کہ وہ بارگاہِ الٰہی میں حضوری کے لائق بن سکے۔
بے شبہ قرآن مجید نے دنیاوی زندگی کے تمام اصول وقواعد مرتب فرمائے ہیں۔ انفرادی اور اجتماعی زندگی کے قوانین، عقائد، عبادات، اخلاق، معاملات، حقوق اور آداب اس نے سب سے بحث فرمائی ہے، مگر ان تمام امور میں ذکر آتا ہے؟ ان کے اوّل و آخر یا درمیان میں ترغیب وترہیب کی آیتیں، جنت ودوزخ اور عذاب کا ذکر ضرور ہوتا ہے، رب تعالیٰ کے اسمائے حسنیٰ سے موقعے کے اعتبار سے کسی مناسب اسم و صفت کا تذکرہ ضرور ہوتا ہے، تاکہ پڑھنے والا یہ بات سمجھتا رہے کہ ان قوانین کی پیروی کے نتیجے میں ابدی راحت اور نافرمانی کی صورت میں اخروی ذلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امام شاطبیؒ نے الموافقات جلد 3 میں بڑے کام کی بات کہی ہے فرماتے ہیں:
قرآن مجید کے اصل علوم تین ہی ہیں: 1: ذاتِ حق کی معرفت۔ 2: حق تعالیٰ کی رضا کی صورتیں۔ 3: انسان کا انجام۔
پہلے علم یعنی ذاتِ حق کی معرفت میں رب تعالیٰ کے اسماء و صفات اور افعال کا علم داخل ہے اور اسی سلسلے میں نبوت سے بھی بحث ہے، اس لیے کہ عبد اور معبود کے درمیان یہی واسطہ ہے۔ دوسرے علم میں عبادات و معاملات وغیرہ داخل ہیں۔ تیسرے علم میں موت اور اس کے احوال، قیامت اور اس کے مشتملات اور جنت و دوزخ کے احوال داخل ہیں۔ اسی قسم میں ترغیب اور ترہیب کی آیات اور وہ آیتیں، جن میں نیکوکاروں کی نجات اور بدکاروں کے برے انجام کے واقعات بیان کیے گئے ہیں، وہ بھی شامل ہیں۔ (قرآن کا مطالعہ کیسے؟ صفحہ 19-18)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment