طبیب شیخ کے اصرار پر بادشاہ کی کنیز نے اپنی داستان غم بیان کرنا شروع کر دی۔ پہلے اپنی سہیلیوں اور رشتہ داروں کے متعلق بتایا، ان کے ذکر سے اس کا رنگ بدلا، نہ نبض میں تغیر واقع ہوا۔ اسی طرح وہ ہر شہر اور ہر گھر کا ذکر کرتی رہی… جہاں جہاں اس کی بود وباش رہی۔ جب کنیز نے سمرقند آنے کے متعلق ذکر شروع کیا۔
سمرقند کا نام لیتے ہی اس کے دل سے آہ نکلی اور آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ آنکھوں کی اس رم جھم میںکہنے لگی: مجھے وہاں ایک خواجہ زرگرنے خرید لیا۔ اس بیان سے اس کی نبض کی دل کی تڑپ کا پتہ دینے اور منہ کی زردی درد فراق کا اظہار کرنے لگی۔ شیخ نے دکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ لیا اور کنیز سے یہ راز معلوم کرلیا کہ وہ سمرقند کے اس خواجہ زرگر پر عاشق ہے۔
طبیب نے کنیز کو تسلی دی کہ اطمینان رکھئے! تم جلد تندرست ہو جاؤگی۔ طبیب نے بادشاہ کو بتایا کہ میں نے مرض معلوم کرلیا ہے۔ آپ کسی طریقے سے فلاں زرگر کو سمرقند سے یہاں بلوالیں۔
بادشاہ نے اپنے دو خاص دانا آدمی سمرقند بھیجے، جو اس سے جا کر ملے اور اس کو اطلاع دی کہ بادشاہ تمہاری ہنرمندی کا شہرہ سن کر بڑا خوش ہوا ہے۔ اس نے تمہارے لئے بیش قیمت خلعت اور مال و زر بھیجا ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ تم اس کے پاس آؤ اور اس کے خاص مصاحبوں میں شامل ہو جاؤ۔ بادشاہ کی یہ عنایت دیکھ کر زرگر بہت خوش ہوا۔ اسی وقت اپنا سب کچھ چھوڑ کر ان کے ساتھ جانے کے لئے تیار ہو گیا۔
سمرقند کا خواجہ زرگر جب محل میں پہنچا تو بادشاہ نے اٹھ کر اس کی تعظیم کی اور حکم جاری کیا کہ تم بے فکری کے ساتھ ہمارے پاس رہو، بادشاہوں کے لائق سونے کے زیورات اور برتن تیار کرو۔ چنانچہ وہ بڑی خوشی اور دل جمعی کے ساتھ اپنے کام میں لگ گیا۔
بادشاہ نے اس کے کام کو دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا اور کہا میں اس کے صلے میں تمہیں اپنی خاص کنیز عطا کرتا ہوں۔ چنانچہ وہی کنیز جو اس زرگر کے فراق میں سوکھ کر کانٹا ہوگئی تھی، اسے دے دی گئی۔ کنیز جب اپنے دل ربا کے پاس پہنچی تو اس کا دکھ درد سب جاتا رہا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چند ماہ میں صحیح سلامت ہوگئی۔ اس کا کھویا ہوا روپ پھر جوبن پر آگیا۔
طبیب کامل نے ایسا شربت تیار کیا، جسے زرگر نے نوش کیا اور وہ پانی نمک کی ڈلی کی مانند گھلنے لگا۔ کنیز کے سامنے اس طویل بیماری کے سبب زرگر کا روپ آہستہ آہستہ جاتا رہا۔ آنکھیں اندر گھس گئیں، چہرے کی سرخی جاتی رہی۔ یہ حالت دیکھ کر کنیز کی محبت بھی رفتہ رفتہ کافور ہوگئی۔ اب وہ کنیز عشق کی بیماری سے شفا پا گئی۔
اس کنیز کی محبت محض صورت پرستی تھی۔ اس لئے صورت کے بگڑنے سے آہستہ آہستہ وہ عشق بھی زائل ہوگیا، جو عشق صرف رنگ و روپ کی خاطر ہوتا ہے، وہ دراصل عشق نہیں بلکہ فسق ہوتاہے۔
اس ترکیب سے طبیب نے کنیز کے’’ مرض عشق‘‘ کا علاج کیا اور اسے تندرست کرکے بادشاہ کے دل کو مسرور اور آنکھوں کا نور بنادیا۔
ظاہری صورت کا عشق آخر کار بدنام اوربے عزتی کا موجب بنتا ہے۔ معشوق کا رنگ و روٖغن اس کی ہلاکت کا سبب بنتا ہے۔ مور کے لئے اس کے خوبصورت پر ہلاکت آفرین ہیں۔
(۱) ہرن کو شکاری مشک کیلئے مارتے ہیں۔
(۲) لومڑی کو پوستین کیلئے ہلاک کیا جاتا ہے۔
اے طالب! اس زندہ( محبوب حقیقی) کا عشق کر، جو ہمیشہ باقی رہنے والا ہے، جو محب و معرفت کی جانفزا پاک شراب پلانے والا ہے۔ تو مایوسی سے یہ مت کہہ کہ اس محبوب حقیقی تک مجھ جیسے نالائق کی کیسے رسائی ہوسکتی ہے۔ حدیث شریف میں ہے جو بندہ میری طرف بالشت بھر قریب آتا ہے میں اس کی طرف گز بھر قریب ہوجاتا ہوں۔ اس کے عشق و محبت کا دروازہ ہر وقت کھلا رہتا ہے۔
درس حیات:
نیکی، بدی کے پردے میں پوشیدہ بھی ہوسکتی ہے اور اس سے ہٹ کر بھی۔ اس لئے نیکی کرتے وقت اصل مقصد منشائے رضائے الٰہی ہونا چاہئے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭