علامہ تنوخیؒ نے اپنی کتاب الفرج بعد الشدۃ نے ذیل کا عجیب و غریب اور عبرتناک واقعہ نقل کیا ہے۔
شاعر ابن محمد بن حسن کہتے ہیں کہ مجھے ابوالغوث کے شاعر غلام نے اپنا واقعہ سنایا کہ ہم شام کے ایک دیہات میں رہتے تھے اور اپنے کھانے کے لئے کئی فرسخ دور چکی سے آٹا پسوا کر لاتے تھے۔ اس علاقہ میں یہ ایک ہی چکی تھی، جس کی وجہ سے وہاں بہت رش لگا رہتا تھا ۔تاہم وہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس والا قانون رائج تھا۔
طاقتور لوگ تو جلد ہی اپنے لئے آٹا پسوا لیتے تھے، مگر کمزور اور غریبوں کوطویل انتظار کرنا پڑتا تھا۔ اس لئے وہ اپنے ساتھ تین چار دن بلکہ اس سے بھی زیادہ دنوں کے لئے خوراک کا انتظام کرکے جاتے تھے۔ ایک دفعہ میں اپنا غلہ پسوانے کے لئے جانے لگا تو اپنے ساتھ کئی دنوں کے لئے روٹی اور سالن بھی ساتھ لے گیا۔
جب میں چکی پر پہنچا، خچر سے غلہ اتار کر نیچے رکھا اور ایک طرف انتظار میں بیٹھ گیا کہ جب موقع ملے گا اور بڑے بڑے لوگ چلے جائیں گے تو میں اپنا غلہ پسوالوں گا، اتنے میں ایک کافی اونچے قد بھاری اور مضبوط جسم والا آدمی میرے پاس سے گزرنے لگا، میں اس وقت کھانا کھانے میں مصروف تھا، میں نے اخلاقاً اسے بھی کھانے کی دعوت دی، وہ بیٹھا اور میرے تین چار دن کا سارا کھانا چٹ کر گیا۔
میرے پاس دوسرے وقت کے لئے کچھ بھی نہ بچا، مجھے تو بہت تعجب ہوا، جب وہ فارغ ہوا تو مجھ سے پوچھنے لگا کہ تم یہاں کیوں بیٹھے ہو؟ میں نے اپنا سارا قصہ اور کام بتایا تو اس نے کہا کہ تم ابھی کیوں نہیں آٹا پسواتے؟ میں نے لوگوں کا رش اور طاقتور لوگوں کا دباؤ بتایا تو وہ بپھر گیا اور اٹھ کر لوگوں کو دھکیلتا اور ہٹاتا ہوا سیدھا چکی کے پاس پہنچ گیا اور چکی پر اپنا ایک پاؤں رکھ دیا، جس سے وہ چکی ہی جام ہوکر رہ گئی۔ سارے لوگ حیران رہ گئے۔ اس نے کہا جسے جرأت ہے تو سامنے آئے۔ ایک طاقتور اور مضبوط آدمی اس کی طرف جوں ہی بڑھا، اس نے اسے پکڑا اور ایک گیند کی طرح زمین پر پٹک دیا اور اس پر اپنا دوسرا پاؤں رکھ دیا، جس سے وہ ہل بھی نہیں سکتا تھا، وہ چکی والے سے کہنے لگا کہ میرا غلہ پہلے پیس کردو، ورنہ میںابھی یہ چکی توڑتا ہوں۔
لوگ سب فریاد کرنے لگے، جی چکی نہ توڑیں، اپنا غلہ پہلے پیس لیں، پھر لوگوں نے مجھے کہا کہ اس کا غلہ لے آؤ، میں نے اپنا غلہ اٹھایا اور چکی سے پیس کر نہ صرف آٹا نکال کر دے دیا، بلکہ اس نے میری مدد کی اور خچر پر لاد بھی دیا اور مجھے کہنے لگا کہ اب تم اپنے گھر چلے جاؤ میں بولا کہ میں اکیلا نہیں جاسکتا مجھے ڈر لگتا ہے وہ کہنے لگا چلو میں بھی تمہارے ساتھ چلتا ہوں میں نے دل میں سوچا کہ یہ بہت بڑا بہادر آدمی ہے، اس لئے اس سے دوستی کرلیتے ہیںبغیر کسی خطرے اور سکون سے ہم اپنے گھر پہنچ گئے۔
میرے والد اور بھائی اتنا جلدی آٹا پیس کر واپس آجانے سے بڑے حیران ہوگئے۔ میں نے انہیں سارا قصہ بتادیا۔ ہم نے اس شخص کواپنے ہاں مدعو کیا اور اس کی دعوت کے لئے ایک گائے ذبح کی اور اس کے لئے ایک عمدہ کھانا سکباج (سرکہ میں گوشت ڈال کر پکانا) تیار کیا۔ وہ سارا اکیلا کھا گیا۔ یہ تقریباً پچاس کلو تھا۔
ہم سب اس کے کھانے سے حیران رہ گئے۔ میرے والدنے اس سے پوچھا کہ آج تک ہم نے آپ جیسا بہادر طاقتور اور بسیار خور انسان نہیں دیکھا ۔آپ ذرا اپنے بارے میں بتائیں تو وہ کہنے لگا کہ میرانام شداد ہے اور فلاں علاقہ کا رہنے والا ہوں ۔ میرا بھائی عاد مجھ سے بھی زیادہ طاقتور مضبوط اور زیادہ بسیار خور تھا۔ ہم قافلوں کی رہنمائی کا کام کرتے تھے۔ ہم تقریباً ہر راستے سے واقف ہیں ہمیں کسی سے کبھی بھی کوئی مدد لینے کی ضرورت نہیں پڑی۔
کئی بار سینکڑوں آدمیوں کو میں اور میرے بھائی دونوں نے مل کر پچھاڑ دیا اور ان پر غالب آگئے۔ ہر ایک کو ہم شکست دے دیتے تھے، جس کی وجہ سے ہماری شہرت دور دور تک پھیل گئی۔ جس قافلے کے ساتھ ہم ہوتے اور لوگوں کوپتہ چل جاتا تو کوئی بھی ہمارے قافلے سے بھول کر بھی چھیڑ چھاڑ نہ کرتا تھا اور وہ کہتے تھے کہ یہ عاد اور شداد کا قافلہ ہے۔
ایک بار میں اور میرا بھائی ایک قافلے کو لے کر چلے۔ جب ایک صحراء میںپہنچے تو دیکھا سامنے سے ایک کالا سیاہ آدمی آرہا ہے، اس نے پوچھا کہ کیا یہ عاد اور شداد کا قافلہ ہے۔ لوگوں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس پر اس نے ہمیں للکارنا شروع کردیا۔ ہم نے اپنی تلوار سونت لی اور سامنے نکل آئے۔ اس نے ایک ہی وار میرے بھائی کی ٹانگ پر ایسا کیا کہ اسے بٹھا کر رکھ دیا اور مجھے میرے کندھے سے جو پکڑا تو خدا کی قسم مجھ میں ہلنے کی طاقت ہی نہ رہی۔
پھر مجھے اور میرے بھائی کو ہمارے کندھوں سے پکڑ کر اس طرح اپنی اونٹنی پر پھینک دیا، جس طرح مسافر اپنا ہلکا پھلکا سامان آرام سے اونٹنی پر پھینک دیتا ہے اور پھر سارے قافلے سے سب کچھ مال و دولت لوٹ کر ہمیں بھی اپنے ساتھ لے چلا، لیکن وہ ایسے راستے پر چلنے لگا جس کا ہمیں بھی پتہ نہ تھا۔ دو دن اور ایک رات وہ ہمیں لے کر چلتا رہا۔ آخر دوسرے دن کی شام کو ایک انجان پہاڑ پر جا پہنچا، جہاں انتہائی دشوار گزار گھاٹیوں سے گزرنے کے بعد ایک غار کے دھانے پہنچ کر ہمیں کجاوہ سمیت اونٹنی سے نیچے اتار کر پھینک دیا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭