قطر پر دبائو ڈال کر طالبان رہنمائوں کو پاکستان جانے سے روکا گیا

محمد قاسم
افغان طالبان کے اسلام آباد میں پاکستانی حکام کے ساتھ مذاکرا ت کے التوا کے حوالے سے معلوم ہوا ہے کہ طالبان رہنمائوں کی تمام دستاویزات ہونے کے باوجود امریکہ نے قطر حکومت سے کہا تھا کہ چھ اہم طالبان رہنمائوں کو پاکستان جانے کی اجازت نہ جائے۔ ذرائع کے مطابق قطر حکومت کو دھمکی دی گئی تھی کہ اگر ان کو پاکستان جانے کی اجازت دی گئی تو قطر میں مذاکرات نہیں کریں گے۔ جبکہ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ قطر میں موجود رہنمائوں کے علاوہ اگر دیگر رہنما پاکستانی حکام سے ملاقات کر لیتے تو افغان حکومت کو پاکستان اور افغان طالبان کے خلاف پروپیگنڈے کا موقع مل جاتا۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق امریکہ نے گوانتا ناموبے سے رہا کئے گئے طالبان رہنمائوں ملا محمد فاضل، ملا عبدالحق، مولوی محمد نبی عمری، ملا نور اللہ نوری اور ملا خیر اللہ خیرخواہ کو پاکستان جانے کی اجازت نہیں دی، جس کی وجہ سے پاکستان میں اعلیٰ سطح کے مذاکرات نہیں ہو سکے۔ ذرائع کے مطابق پانچ اور چھ فروری کو ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے امریکہ نے پیشکش کی تھی کہ اگر یہ مذاکرات ازبکستان میں ہوں تو ان پانچ افراد کو سفر کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ تاہم ملا فاضل اور ملا خیر اللہ نے سفری پابندی کے باوجود ماسکو کانفرنس میں شرکت کی تھی۔ ’’امت‘‘ کو ملنے والی اطلاعات کے مطابق اکتوبر 2017ء میں ان طالبان رہنمائوں کو افغانستان کے پاسپورٹ جاری کردیئے گئے تھے، لیکن ان سے ضمانت لی گئی کہ ان پاسپورٹس پر وہ پاکستان کا سفر نہیں کریں گے۔ ذرائع کے مطابق بھارت کی ایما پر افغان حکومت نے یہ شرط عائد کی تھی۔ جس کی وجہ سے طالبان کے یہ رہنما امریکہ کی خواہش کے برعکس کسی ملک کا سفر نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے افغان طالبان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ذرائع کے مطابق سترہ اور اٹھارہ دسمبر 2018ء کو ملا فاضل اور ملا خیر اللہ کو دوحہ کے ہوائی اڈے پر تین گھنٹے تک روکے رکھا گیا اور پھر امریکہ کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ زلمے خلیل زاد کی مداخلت پر انہیں دبئی جانے کی اجازت دی گئی۔ تاہم انہیں دبئی میں بھی صرف دو دن قیام کی اجازت دی گئی تھی۔ پاکستان میں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی آمد پر پاکستان، سعودی عرب اور افغان طالبان کے درمیان اہم پیش رفت کو روکنے کیلئے امریکہ نے قطر کی حکومت پر دبائو ڈال کر طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے 9 میں سے پانچ اراکین کو روک دیا، جس کی وجہ سے افغان طالبان کو پاکستانی وزیراعظم عمران خان اور محمد بن سلمان کے ساتھ ملاقات ملتوی کرنی پڑی۔ افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے اہم رہنمائوں پر سفری پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ ذرائع کے بقول افغان حکومت نے بعض طالبان رہنمائوں کو پاکستان جانے کی اجازت دی تھی، جن میں ملا عباس استنکزئی، شہاب الدین دلاور، سہیل شاہین اور دیگر شامل تھے۔ افغان حکومت کی کوشش تھی کہ اگر افغان طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کیلئے امریکیوں سے رابطہ کر کے ان کی منت سماجت کر کے مذاکرات کیلئے پاکستان جائیں، تو افغان حکومت یہ پروپیگنڈا کرے گی کہ افغان طالبان کو پاکستان کی جانب سے ہدایات دی جارہی ہیں۔ اس لئے طالبان نے افغان حکومت کی اس چال کو ناکام بناتے ہوئے پاکستان کے ساتھ مذاکرات ملتوی کر دیئے۔ ’’امت‘‘ کے ذرائع کے مطابق افغان طالبان نے قطری حکام سے کہا ہے کہ انہیں ان کی مجبوریوں کا علم ہے۔ جبکہ پاکستان اور سعودی عرب کے حکام کو پیغام بھیجا ہے کہ افغان طالبان خطے میں امن کے لئے سعودی عرب اور پاکستان کی کوششوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور افغانستان میں قیام امن کیلئے پاکستان اور سعودی عرب کی کوششوں کا ساتھ دیں گے، تاہم اس وقت افغان طالبان کو مشکلات کا سامنا ہے۔ لیکن وہ امریکہ اور افغان حکومت کی اس بلیک میلنگ کو پوری دنیا کے سامنے پیش کریں گے کہ افغان طالبان رہنمائوں کے نام نام نہاد بلیک لسٹ میں شامل کر کے انہیں سعودی عرب، پاکستان، چین، روس، ایران، ترکی اور دیگر ممالک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے روکا جارہا ہے۔ افغان طالبان نے الزام عائد کیا ہے کہ صدر اشرف غنی کی کوشش ہے کہ افغانستان میں امن قائم نہ ہو۔ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیلئے افغان حکومت نے کبھی یہ نہیں کہا کہ طالبان رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔ لیکن پاکستان کے ساتھ طالبان کے رابطوں کو روکنے کیلئے طالبان کے ساتھ ساتھ قطر پر بھی دبائو ڈالا جارہا ہے۔ تاہم افغانستان میں قیام امن کیلئے طالبان نہ صرف یکسو ہیں بلکہ قطر میں ہونے والے بین الافغانی مذاکرات میں بڑی پیشرفت کیلئے پرامید ہیں۔ طالبان ذرائع کا کہنا ہے کہ 25 فروری کو ہونے والے مذاکرات میں امریکہ اور طالبان کے درمیان بھی پیشرفت کا امکان ہے۔ طالبان خطے کے تمام ممالک کے مفادات کو ایک نظر سے دیکھیں گے۔ طالبان بعض ممالک کی چالوں سے باخبر ہیں، جو طالبان اور ان کے حامی ممالک کے درمیان تعلقات خراب کرنے کی سازشیں کر رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment