تثلیث سے توحید تک

شومئی قسمت کہ چند روز بعد اس مسلمان بڈھے کا معصوم پوتا بھی وفات پا گیا۔ اس اطلاع کے بعد میں نے اپنی اندازہ شناسی کی تمام قابلیتوں کو نئے سرے سے جمع کیا اور بے قراری کے عالم میں اس کے پاس گاؤں پہنچی۔
مجھے یقین تھا کہ اب لاوارث بڈھا صبروقرار کھو چکا ہوگا، اس کا دل و دماغ معطل ہوچکا ہوگا اور ناامیدی اس کے امید کے تمام رشتے منقطع کرچکی ہوگی، مگر یہ دیکھ کر خود میرے حواس جواب دینے لگے کہ بڈھا اسی سکون کی حالت میں ہے، جس کا تجربہ میں دو مرتبہ کر چکی تھی۔
میں نے نہایت دل سوزی کے ساتھ اس کے مصائب پر غم کا اظہار کیا۔ وہ سر جھکائے میری باتیں سنتا رہا۔ کبھی کبھی اس کے سینے سے آہوں کی صدا بھی آتی۔ وہ سخت غمگین بھی تھا، مگر میرے خاموش ہونے پر اس نے کمال صبر و تحمل سے جواب دیا ’’میم صاحبہ یہ سب خدا کی حکمت کے کھیل ہیں، اس نے جو کچھ دیا تھا، خود ہی واپس لے لیا ہے۔ اس میں ہمارا تھا ہی کیا۔ پھر ہم اپنے دل کو برا کیوں کریں، بندے کو ہر حال میں خدا کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہم مسلمانوں کو یہی حکم ہے کہ خدا کی رضا پر صبر کریں۔‘‘
لیڈی بارنس درد دل کی کیفیتوں سے لبریز تھی۔ اس نے اپنا دایاں ہاتھ اٹھایا اور رندھی ہوئی آوزاز میں کہا’’ ڈاکٹر صاحب! بڈھے کا یہ جواب میرے لئے قتل کا پیغام تھا۔ اس کی انگلی آسمان کی طرف اٹھی ہوئی تھی، مگر نشتر بن کر میرے دل میں اتر گئی تھی۔ میں نے اس مرد ضعیف کی پختگی ایمان کے سامنے ہمیشہ کے لئے سر جھکادیا۔ مجھے یقین حاصل ہو گیا کہ بڈھے کا یہ اطمینان قلب مصنوعی نہیں حقیقی ہے۔
اب وہ اس گاؤں میں اکیلا تھا۔ میں نے اسے اپنے ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ اس نے شکریہ ادا کیا اور بے تکلف میرے ساتھ ہوٹل میں چلا آیا۔ یہاں وہ دن بھر ہوٹل کی خدمت کرتا اور رات کو خدا کی یاد میں مصروف ہو جاتا تھا۔
کچھ عرصے کے بعد ایک روز بڈھے نے قبرستان جانے کا ارادہ کیا۔ تجسس کا جذبہ مجھے بھی اس کے ساتھ لے گیا۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ اب اس کے جذبات کیا صورت اختیار کرتے ہیں۔ قبرستان میں پہنچ کر وہ شکستہ قبروں کو درست کرنے لگا۔ وہ مٹی کھود کھود کر لاتا اور قبروں پر ڈالتا۔ پھر وہ پانی لے آیا اور قبروں پر چھڑکاؤ کرنے لگا۔ اس کے بعد اس نے وضو کیا، ہاتھ اٹھائے اور اہل قبرستان کے حق میں دعا کرکے واپس چل دیا۔
میں نے اس تمام عرصے میں نہایت احتیاط سے اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیا اور محسوس کیا کہ اس کے ہر کام میں اطمینان کا نور اور ایمان کی پختگی جلوہ گر ہے۔ میرے دل میں وہ چنگاری جو ایک مدت سے آہستہ آہستہ سلگ رہی تھی، یکایک بھڑک اٹھی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ بڈھے کی خوبی نہیں، بلکہ اس دین حق کا کمال ہے، جس کا یہ بڈھا پیروکار ہے۔
میں نے اسی وقت مسلمان ہونے کا حتمی فیصلہ کرلیا اور ہوٹل میں پہنچ کر اس سے کہا کہ وہ کوئی ایسی مسلمان عورت بلا لائے، جو مجھے اسلامی تعلیم دے۔ بڈھا فی الفور اٹھا اور اپنے مولوی صاحب کی لڑکی کو بلا لایا۔ اس نے مجھے خدا اور رسولؐ پر ایمان لانے کی ترٖغیب دی اور کلمہ شہادت کا سبق سکھایا۔
’’ڈاکٹر صاحب‘‘ لیڈی بارنس نے روح پرور لہجے میں کہا ’’اب میں خدا تعالیٰ کے فضل و کرم سے مسلمان ہوں اور وہی عظیم قوت ایمان جس سے بڈھے کا دل سر شار تھا، اپنے سینے میں موجود پاتی ہوں۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment