عباس ثاقب
منیم کی طرف سے پھٹکار سن کر دونوں دیہاتیوں کے چہرے سفید پڑگئے۔ وہ چند لمحوں تک مشورہ طلب نظروں سے ایک دوسرے کی طرف دیکھتے، بالآخر بلوندر نے ہمت کرکے منیم سے کہا ’’منجوت سیاں، کرن بھائیا کے حالات کا مجھے پتا ہے، میری طرح رو پیٹ کر سال بھر گھر والوں کا پیٹ بھر پاتا ہے، آدھی زمین ہاتھ سے نکل گئی تو مزارع بننا پڑے گا اسے۔ میری گھر والی تو واہگرو کے پاس چلی گئی، مگر مجھے اس کی حالت پر ترس آتا ہے۔‘‘
اس کی بات سن کر منجوت نامی اس منیم نے پہلے سے بھی زیادہ بگڑے ہوئے لہجے میں کہا ’’اگر تم نے آپس میں ہی فیصلہ کرنا تھا تو مٹھو سنگھ جی کے دربار میں آکر سرکار کا وقت کیوں خراب کیا؟‘‘
پھر وہ کرن سنگھ سے مخاطب ہوا ’’کرن سنگھ، اب کچھ نہیں ہوسکتا، میں نے تمھاری تین بیگھے زمین کا اسٹامپ پیپر بنادیا ہے، دربار ختم ہونے کے بعد اس پر انگوٹھا لگاؤ اور اپنے تین ہزار روپیے نقد لے جاؤ۔ اس کے بعد تم دونوں کی مرضی ہے کہ آپس میں کیا سمجھوتا کرتے ہو۔‘‘
مٹھو سنگھ کے منیم کا فیصلہ سن کر سکھبیر نے میرے کان میں دھیمی لیکن ناراضی بھری سرگوشی کی ’’اس علاقے میں ایک بیگھے زمین دو ہزار سے کم میں نہیں ملتی، یہ سور تین ہزار میں تین بیگھے زمین ہتھیا رہے ہیں۔ شکر ہے، ہمیں ان ظالموں سے زمین کے سینے کا بوجھ ہلکا کرنے کا موقع مل رہا ہے۔‘‘
میں نے تائید میں سر ہلایا۔ میری نظریں کرن سنگھ اور بلوندر گریوال پر جمی ہوئی تھیں جن کی حالت سے صاف ظاہر تھا کہ یہ فیصلہ ان دونوں ہی کو بہت گراں گزرا ہے۔ لیکن احتجاج کرنے کے بجائے انھوں نے سرجھکا لیا، البتہ کرن سنگھ اپنی آنکھوں میں بھرآنے والے آنسوؤں کو روک نہیں پایا اور چادر میں منہ چھپاکر رو پڑا۔ یہی وہ وقت تک جب میں نے اپنا پستول نکال کر چادر کے اندر ہی اس کا چیمبر کھینچ کرگولی لوڈ کرلی۔
ان دونوں کی حالت نظر انداز کرکے منیم نے کوئی اور نام پکارا، لیکن کرن سنگھ اور بلوندر کے بیٹھتے ہی میں ایک جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا۔ منیم اور مٹھو سنگھ نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا۔ لیکن اس دوران میں ہجوم چیر کر باہر نکل چکا تھا۔ سکھبیر سنگھ بھی میرے ساتھ ہی حرکت میں آیا تھا۔ میں پلک جھپکتے میں مٹھو سنگھ کے عین سامنے جاپہنچا اور اس سے پہلے کہ کوئی کچھ سوچ سمجھ سکتا، میں نے پستول نکال کر اس کی نال کا رخ عین مٹھوسنگھ کے سینے کی طرف کردیا۔
صورتِ حال کا ادراک ہوتے ہی مٹھو سنگھ کی آنکھوں میں خوف چمکا لیکن میں نے اسے مزید دہشت زدہ ہونے کا موقع نہیں دیا۔ پہلی ہی گولی اس کی واسکٹ کی جیب میں اڑسے ریشمی رومال کے عین نیچے پیوست ہوئی اور واسکٹ کے قیمتی کپڑے میں چھید ہوگیا، اس کے جسم نے پیچھے کی طرف جھٹکا کھایا لیکن میں نے بغیر توقف کے مزید دو گولیاں اس کی چھاتی میں اتار دیں۔ اذیت اور کرب کی شدت سے اس کا منہ کھلا اور وہ سامنے میز پر ڈھیر ہوگیا، لیکن اس دوران میں اسے نظرانداز کرکے دونوں پولیس والوں اور مٹھو سنگھ کے محافظ کی طرف متوجہ ہوچکا تھا۔ مجھے دونوں سنتری بری طرح حواس باختہ نظر آئے، حتیٰ کہ ان میں سے ایک کے ہاتھ سے رائفل چھوٹ کر زمین پر گر پڑی، جبکہ دوسرا بوکھلاکر اٹھ کھڑا ہوا تھا، البتہ اس کے چہرے پر خوف کے تاثرات اتنے گہرے تھے کہ مجھے لگا وہ رائفل چلانے کے بجائے فرار اختیار کرنے کو ترجیح دے گا۔
تبھی پنڈال میں یکے بعد دیگرے دو دھماکے مزید گونجے۔ میں نے چونک کر دیکھا تو میز کے پیچھے چھپنے کی ناکام کوشش کرنے والے منیم کو سینہ پکڑے اسٹیج پر ایک طرف گرتے دیکھا۔ اسے سکھبیر نے نشانہ بنایا تھا۔ میں نے صورتِ حال سمجھتے ہی ایک بار پھر سنتریوں اور شاٹ گن بردار محافظ پر توجہ کی۔ شاٹ گن بردار محافظ صورتِ حال کی سنگینی کا ادراک ہوتے ہی حویلی کے عقبی دروازے کی طرف بھاگ نکلا تھا۔ میں نے اس پر دو گولیاں چلائیں لیکن وہ بچ نکلا۔
میں نے اسے نظر انداز کرکے سنتریوں کی طرف دیکھا تو مجھے وہ دونوں اپنی رائفلوں سے الجھتے دکھائی دیے، اب اس میں کوئی شبہ نہیں تھا کہ ان کی رائفلیںخالی تھیں اور سنتریوںکی بدحواسی بتارہی تھی کہ انھیں لوڈ کرنے میں کچھ وقت لگنے والا ہے۔ میں نے ان دونوں کو نشانہ بنانے کیلئے پستول اٹھایا لیکن جانے کیوں میں گولی نہ چلا پایا۔ شاید ان کی آنکھوں میں کہرام مچاتے موت کے خوف نے میری انگلی کی جنبش روک دی۔ لیکن سکھبیر نے ان کی حالت پر توجہ دیے بغیر یکے بعد دیگرے تین گولیاں ان پر چلائیں اور پھر چیخ کر مجھے کہا ’’چلو بھائیا، کام ہوگیا!‘‘
میں سکھبیر کی زبان سے نکلے الفاظ سنتے ہی بدحواسی اور خوف سے بھرپور اوٹ پٹانگ آوازیں نکالتے ہجوم سے کنی کترا کر پنڈال کے عقبی، بڑے دروازے کی طرف دوڑا۔ سکھبیر میرے پیچھے پیچھے تھا۔ ہجوم کائی کی طرح پھٹ کر ہمارے راستے سے ہٹتا گیا، تاہم سکھبیر نے مزید خوف و ہراس پھیلانے کیلئے مزید دو گولیا ں چلا کر چھپر میں سوراخ کردیئے۔
ہم برق رفتاری سے پنڈال سے نکلے، سامنے ہی جیپ سڑک کی طرف رخ کیے کھڑی نظر آئی۔ اس کے قریب پہنچ
کر میں نے مشکل خود کو روکا اور پلٹ کر پنڈال کی طرف دیکھا۔ لیکن مجھے وہاں کوئی باہر کی طرف جھانکتا نظر نہ آیا، تبھی مجھے شیردل سنگھ کی جوش بھری آواز سنائی دی ’’جیپ میں بیٹھو بھائیا جی، میں نے نشانہ لے رکھا ہے، کسی نے ادھر آنکھ اٹھا کر بھی دیکھنے کی کوشش کی تو کھوپڑی اڑادوں گا۔‘‘
وہ واقعی جیپ کے عقبی حصے میں پوزیشن بنائے رائفل سے نشانہ باندھے بیٹھا تھا۔ میں نے کہا ’’ان بزدلوں میں جواب دینے کی ہمت نہیں ہے، پھر بھی دو تین ہوائی فائر کرکے مزید خبردارکر دو کہ پیچھے آنے کی کوشش کا نتیجہ اچھا نہیں نکلے گا۔‘‘
اس نے میری ہدایت پر عمل کیا۔ اس دوران سکھبیر جیپ کے اگلے حصے میں مہتاب سنگھ کے ساتھ والی سیٹ سنبھال چکا تھا۔ میں نے شیردل کے ساتھ عقبی نشست پر قبضہ کرتے ہوئے جیپ کے فرش پر رکھی ہوئی دوسری اینفیلڈ ٹو رائفل اٹھالی۔ میں ایک لمحے میں لیور کھینچ کر گولی لوڈ کرسکتا تھا۔ میری نظریں بھی پنڈال پر جمی ہوئی تھیں لیکن وہاں کوئی دکھائی نہ دیا۔
اس اثنا میں مہتاب سنگھ جیپ کو سڑک کی طرف بڑھا چکا تھا۔ میں نے مطمئن ہوکر رائفل دوبارہ فرش پر رکھ دی، تاہم شیردل سنگھ بدستور چوکنا تھا۔ جیپ کی رفتار کافی تیز تھی، کچھ ہی دیر میں پہلے پنڈال اور پھر حویلی ہماری نظروں سے دور دور ہوتے لگ بھگ اوجھل ہوگئی۔ ادھر سکھبیر سنگھ خوشی سے چہک رہا تھا اور مجھے مبارک دیتے ہوئے میری کارکردگی کو سراہ رہا تھا۔ میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ مٹھوسنگھ کا خاتمہ میرے لیے ذاتی طور پر خوشی کا باعث ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭