سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ:راہ حق کا مسافر

سیدنا عمرو بن عبسہؓ کے متعلق بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ وہ اسلام قبول کرنے والے پانچویں خوش نصیب انسان ہیں۔ وہ خود کو چوتھا مسلمان بتاتے ہیں۔ ان کا تعلق قبیلہ بنو سلیم سے تھا۔ یہ قبیلہ بالائی نجد میں خیبر کے قرب و جوار میں بودوباش رکھتا تھا۔ حضرت عمروؓ کے دادا کا نام خالد بن عامر یا عامر بن خالد تھا۔ابونجیح یا ابو شعیب ان کی کنیت تھی۔ حضرت عمروبن عبسہؓ حضرت ابوذر غفاریؓ کے ماں جائے بھائی تھے۔ رملہ بنت وقیعہ غفاریہ دونوں اصحابؓ کی والدہ تھیں۔ ابن جوزیؒ نے حضرت عمروؓ کے والد کا نام عنبسہ تحریر کیا ہے۔
حضرت عمرو بن عبسہؓ سلیم الطبع تھے اور زمانہ جاہلیت ہی میں بت پرستی سے کنارہ کش ہو چکے تھے۔ اپنی نیک فطرت کی وجہ سے انہوں نے اسلام کی طرف لپکنے میں بھی پہل کی۔ خود فرماتے ہیں: میں ایمان لانے والا چوتھا شخص تھا۔ سیدنا ابوامامہ باہلیؓ نے حضرت عمروؓ سے پوچھا: آپ بنوسلیم کے ایک فرد اور صاحب حیثیت بزرگ ہیں۔ اپنے آپ کو اسلام میں داخل ہونے والا چوتھا فرد کس طرح قرار دیتے ہیں؟ انہوں نے بتایا: زمانہ جاہلیت ہی میں میرا خیال تھا کہ ہماری قوم گمراہ ہو چکی ہے۔ یہ بتوں کی پوجا کرتے ہیں اور ان کا کوئی دین نہیں۔
ایک بار میں ایسی ہی گفتگو کر رہا تھا کہ کسی آدمی نے سن کر کہا: مکہ میں ایک شخص ہے جو یہی بات کرتا ہے، میں نے سواری پکڑی اور مکہ پہنچ گیا۔ آپؐ کا کھوج لگاتا رہا، پھر پتا چلا کہ آپؐ مخفی رہتے ہیں۔ رات کے وقت خانہ کعبہ کا طواف کرتے ہیں، اس وقت آپؐ سے ملا جا سکتا ہے۔ میں کعبہ کے پردوں میں چھپ کر سو گیا اور آپؐ کی آواز سن کر بیدار ہوا۔ آپ کلمہ طیبہ کا ورد کر رہے تھے۔ میں باہر نکلا اور پوچھا: آپ کون ہیں؟ فرمایا: میں خدا کا نبی ہوں۔ پوچھا: نبی کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: خدا کا رسول (پیغمبر)۔
میں نے پھر پوچھا: کیا خدا نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ فرمایا: ہاں۔ میں نے سوال کیا: کیا پیغام دے کرآپ کو مبعوث کیا ہے؟ فرمایا: یہ کہ خدا اکیلے کو معبود مانا جائے اور کسی کو بھی اس کا شریک نہ بنایا جائے، بتوں کو توڑ دیا جائے، رحم کے رشتوں کو جوڑا جائے، خون ریزی بند کی جائے اور راستوں کو محفوظ بنایا جائے۔
میں نے پوچھا: اس دین میں آپ کا ساتھ کون دے رہا ہے؟ جواب فرمایا: ایک آزاد اور ایک غلام۔ تب سیدنا ابوبکرؓ اور سیدنا بلالؓ آپؐ کے ساتھ تھے۔ میں نے کہا: ہاتھ بڑھائیے، میں آپ کی بیعت کرتا ہوں۔ تب میں نے رسول اقدسؐ کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی۔ پھر کہا: میں آپ کے ساتھ ساتھ رہوں گا۔ آپؐ نے فرمایا: تم دیکھ نہیں رہے کہ لوگ میرے لائے ہوئے نور ہدایت کو نا پسند کر رہے ہیں، اس لیے آج تم یہاں رہ نہیں سکو گے، اپنے اہل خانہ کے پاس واپس چلے جاؤ اور جب یہ سنو کہ میں مکہ سے نکل آیا ہوں (یا مجھے غلبہ حاصل ہو گیا ہے) تو میرے پاس چلے آنا۔ (صحیح مسلم، مسند احمد)
ابن کثیر کہتے ہیں کہ آپؐ کے ارشاد غلام اور آزاد کا اطلاق محض سیدنا ابوبکرؓ و سیدنا بلالؓ پر کرنا درست نہیں۔ ان الفاظ کو اسمائے جنس سمجھنا چاہیے، اس لیے کہ صحابہؓ کی ایک جماعت حضرت عمرو بن عبسہؓ سے پہلے اسلام قبول کر چکی تھی۔ مثلاً آں حضرتؐ کے غلام حضرت زید بن حارثہؓ، سیدنا بلالؓ سے بھی پہلے ایمان لا چکے تھے۔ حضرت عمرو بن عبسہؓ اپنے آپ کو چوتھا مسلمان اپنی معلومات کے مطابق قرار دیتے ہیں، کیونکہ اس وقت مسلمان اپنا اسلام چھپاتے تھے۔ ان کے ایمان کا علم ان کے رشتہ داروں کی اکثریت کو نہ ہوتا تھا، کجا اجنبیوں اور اہل بادیہ کو یہ خبر مل پاتی۔
اسلام لانے کے بعد حضرت عمرو بن عبسہؓ بنو سلیم کے علاقوں صفینہ اور حاذہ (جادہ) میں مقیم رہے۔ خود بیان کرتے ہیں کہ میں مسلمان ہونے کے بعد اپنے گھر والوں کے پاس چلا آیا اور ایک لمبا عرصہ آپ کی اطلاع آنے کا انتظار کرتا رہا۔ ہمارا گھر قافلوں کی گزرگاہ سے زیادہ دور نہ تھا۔ میں مکہ سے آنے والے قافلوں سے پوچھتا رہتا، کیا وہاں کوئی واقعہ رونما ہوا ہے؟ اس طرح مجھے پتا چل گیا کہ نبی کریمؐ مکہ سے ہجرت کر کے یثرب تشریف لے آئے ہیں۔ پھر یثرب سے ایک قافلہ آیا تو میں نے استفسار کیا، مکہ کے اس شخص کے کیا احوال ہیں جو آپ کے شہر میں ہجرت کر آیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ آپ کی قوم نے آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا، لیکن مشیت ایزدی حائل ہوئی اور دشمن کامیاب نہ ہو سکے۔ میں لوگوں کو چھوڑ کر بھاگا ،اپنی سواری پکڑی اور مدینہ چلا آیا۔آپؐ کے پاس پہنچا اور پوچھا: کیا آپ نے مجھے پہچان لیا ہے؟ فرمایا: ہاں تو وہی ہے جو مکہ میں میرے پاس آیا تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment