نعیم الحق پی ٹی وی کو سیاسی عناصر سے پاک کرنا چاہتے ہیں

نمائندہ امت
پی ٹی وی کے معاملے پر وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر اعظم کے معاون خصوصی نعیم الحق کے درمیان تنازعہ شدت اختیار کر چکا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان فی الحال نہ اپنے مشیر اور نہ ہی وزیر کو ان کے عہدوں سے فارغ کریں گے۔ وفاقی حکومت کے ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ عمران خان، فواد چوہدری کے موقف پر نعیم الحق کی رائے کو ترجیح دیں گے۔ جبکہ مقتدر حلقے بھی نعیم الحق کے موقف کی تائید کر رہے ہیں۔ کیونکہ نعیم الحق پاکستان ٹیلی ویژن کارپوریشن کا خسارہ کم کرنے کیلئے ادارے میں سیاسی بنیاد پر بھرتی ہونے والوں کو فارغ کرنا چاہتے ہیں۔ یہ بھرتیاں پیپلز پارٹی اور ’’ن‘‘ لیگ کی حکومتوں کے دوران ہوئی تھیں۔ جن کی وجہ سے سرکاری ٹیلی ویژن خسارے کا شکار ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی مہم جوئیوں سے تنگ آچکے ہیں لیکن وہ فوری طور پر ان کو تبدیل نہیں کریں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری اور نعیم الحق کے درمیان حالیہ تنازعہ کے بعد وزیراعظم نہیں چاہیں گے کہ انہیں بار بار خود وضاحتیں کرنا پڑیں۔ ان کی خواہش ہے کہ گڈ گورننس کیلئے میڈیا کے ساتھ اچھے تعلقات رکھے جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیر اطلاعات کے حوالے سے عمران خان کی پہلی ترجیح شیخ رشید ہی ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف میں نئے آنے والوں اور پرانے لوگوں کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ وزیراعظم کے معاونِ خصوصی نعیم الحق نے پی ٹی وی کے بارے میں ایک ٹویٹ کی، جس میں انہوں نے لکھا کہ ’وزیر اعظم کو پی ٹی وی کے بورڈ پر اور اس کی انتظامیہ پر مکمل اعتماد ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی وی کو ایک آزاد ادارے کے طور پر چلایا جانا چاہئے اور حکومت اس کیلئے تمام ضروری اقدامات کرے گی۔‘ جس پر فواد چوہدری نے غالب کا ایک شعر لکھ کر جواب دیا تو، جواب میں نعیم الحق نے ایک اور ٹویٹ کی کہ ’پی ٹی آئی میں تمام نئے آنے والوں کو عمران خان کے فلسفے کی پیروی کرنی چاہیے اور اسے سمجھنا چاہیے۔ پی ٹی آئی ایک مضبوط نظریاتی جماعت ہے اور اس کی کامیابی، اس کے رہنما کی انصاف اور شفافیت کی جستجو میں ثابت قدمی کی وجہ سے ممکن ہوئی۔ اس سے مختلف سوچ والوں کی پارٹی میں کوئی جگہ نہیں ہے‘۔ فواد چوہدری نے اس ٹویٹ کا تو جواب نہیں دیا، مگر انہوں نے ایک ری ٹویٹ کی، جس میں راحیل نامی ٹوئٹر صارف نے لکھا کہ ’پرانے لوگوں کو بھی اپنی اوقات میں رہنا چاہئے۔ نعیم الحق اگر آپ ایک سیاستدان بننا چاہتے ہیں تو انتخابات میں حصہ لیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ دوستی پر انحصار کرنے سے آپ کو سیاسی معاملات میں مداخلت کرنے کا اختیار نہیں مل جاتا‘۔ ذرائع کے مطابق فواد چوہدری کے حوالے سے پارٹی میں تحفظات پائے جاتے ہیں کہ انہوں نے وزیر اطلاعات بنتے ہی ریڈ زون میں واقع ریڈیو پاکستان کی عمارت کو فروخت کرنے کی بات کی تھی اور ایک نجی ٹیلی ویژن سے معاملات طے کرلیے تھے، لیکن ریڈیو پاکستان کے ملازمین ڈٹ گئے تھے اور مقتدر حلقوں نے بھی اس کی منظوری نہیں دی تھی کیونکہ ریڈیو پاکستان پاکستان کی آواز تمام دنیا میں پہنچاتا ہے اور سیاچن کے محاذ پر بھی ریڈیو پاکستان کی آواز جاتی ہے۔ اسی طرح پاکستان ٹیلی ویژن صرف ایک اینٹینا کے ذریعے عام پاکستانیوں کے گھروں میں اپنی نشریات پہنچاتا ہے۔ پارٹی میں نعیم الحق کے حامی ذرائع کا کہنا ہے کہ فواد چوہدری نے میڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کے بجائے انہیں خراب کیا ہے اور اشتہارات کی رقوم کی ادائیگی کے حوالے سے بھی غلط بیانی سے کام لیا۔ وہ میڈیا کے بحران کو سمجھنے کے بجائے صحافیوں سے الجھتے رہے ہیں۔ سیاست کے ہر گھاٹ کا پانی پینے والے فواد چوہدری ابھی تک تحریک انصاف کے کلچر کو نہیں سمجھ سکے ہیں۔ جبکہ فواد چوہدری اور نعیم الحق کے درمیان اختلافات نئے نہیں ہیں۔ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے پہلے ایک بار جب سپریم کورٹ آف پاکستان میں پاناما لیکس کیس کی سماعت میں وقفہ ہوا تو پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری نے میڈیا سے تنہا گفتگو کی تھی، اس وقت نعیم الحق تحریک انصاف کے سیکرٹری اطلاعات تھے۔ اس بے قاعدگی پر نعیم الحق فواد چوہدری پر برہم ہوگئے تھے۔ اس واقعہ کی تفصیل کچھ اس طرح تھی کہ پاناما لیکس کی سماعت کے دوران جب 11 بجے سپریم کورٹ میں وقفہ ہوا تو پی ٹی آئی ترجمان فواد چوہدری اور فرخ حبیب میڈیا سے گفتگو کے لئے سپریم کورٹ کے باہر آئے اور نعیم الحق کے آنے کا انتظار کئے بغیر میڈیا سے گفتگو شروع کر دی۔ نعیم الحق بعد میں وہاں پہنچے اور آ کر پیچھے کھڑے ہو گئے۔ جب فواد چوہدری میڈیا سے گفتگو کر کے واپس گئے تو نعیم الحق نے ان سے کہا کہ ’یہ بات درست نہیں، میں کافی دیر سے کھڑا ہوں۔ میرا انتظار تو کر لیتے۔ اتنی کیا جلدی تھی‘۔ اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل ڈاکٹر بابر اعوان نے دونوں کے درمیان صلح کرواکے معاملہ رفع دفع کردیا تھا۔ واضح رہے کہ کبھی تحریک انصاف کے ترجمان نعیم الحق ہوا کرتے تھے۔ پھر جنرل مشرف کی مدح سرائی اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان پر تنقید کے تیر برساتے برساتے ، اچانک فواد چوہدری تحریک انصاف میں آگئے۔ جب کہیں نعیم الحق تحریک انصاف کی ترجمانی کے فرائض ادا کرتے دکھائی دیتے تو پچھلی صف میں کھڑے ہوئے فواد چوہدری موقع ملتے ہی جھپٹ کر مائیک اچک لیتے تھے اور نعیم الحق پر حاوی ہونے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ایسے میں نعیم الحق کے چہرے پر ناگواری کے تاثرات کیمرے کی آنکھ کے ذریعے لوگوں تک پہنچ جاتے تھے۔ پھر بڑی تیزی کے ساتھ فواد چوہدری نے ایسا راگ الاپا، جو انہیں تحریک انصاف کی ترجمانی سے وزارت اطلاعات کے قلم دان تک لے گیا اور نعیم الحق کے ساتھ شیخ رشید بھی منہ دیکھتے رہ گئے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment