نذر الاسلام چودھری
بنگلہ دیش کی حکومت نے تصدیق کی ہے کہ اولڈ ڈھاکا کے علاقے میں واقع کیمیکل مارکیٹ میں منگل کے روز لگنے والی آگ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 70 ہوگئی ہے۔ جبکہ 200 افراد زخمی ہوئے ہیں۔ درجنوں گاڑیوں اور قریبی عمارتوں کی تباہی سے اربوں روپے کے نقصان کا خدشہ ظاہر کیا گیا ہے۔ زخمیوں کو ڈھاکہ میڈیکل کالج اسپتال سمیت مختلف سرکاری اسپتالوں میں داخل کرادیا گیا ہے۔ اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر کے مطابق مردہ خانے میں 67 لاشیں موجود ہیں، جن میں چار بچے بھی شامل ہیں۔ مرنے والوں میں بڑی تعداد مقامی رہائشیوں اور کیمیکل مارکیٹ میں کام کرنے والے مزدوروں کی ہے۔ دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں اور مقامی افراد نے الزام عائد کیا ہے کہ حکومت نے رہائشی علاقے سے کیمیکل گوداموں اور دکانوں کو منتقل کرانے کے لئے خود آگ لگوائی ہے اور اس کارروائی میں عوامی لیگ کے مقامی غنڈے ملوث ہیں۔ عوامی لیگ کے غنڈوں نے کچھ عرصہ پہلے بھی کیمیکل کے تاجروں کو دھمکیاں دی تھیں کہ جتنی جلد ہو سکے اس علاقے کو خالی کردیا جائے۔
بنگلہ دیشی دارالحکومت سے شائع ہونے والے انگریزی جریدے، ڈیلی اسٹار کے نمائندے نے دعویٰ کیا ہے کہ اولڈ ڈھاکا کے چوک بازار میں موجود تمام کیمیکل ویئر ہائوس کے مالکان اور ڈیلرز کو حکومت نے پولیس کی مدد سے دھمکایا ہے کہ اگر جان و مال کی خیر چاہتے ہو تو فی الفور علاقہ چھوڑ دو اور عدالت کا رُخ بھی نہ کرنا ورنہ آتشزدگی کیس میں نامزد کرکے جیل بھیج دیا جائے گا۔ بنگلہ دیشی اپوزیشن جماعت، بی این پی کے رہنما مرزا فخر الاسلام نے واقعہ کی حقیقت جاننے کیلئے عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ جبکہ روڈ ٹرانسپورٹ کے وزیر عبیدالقادر نے تصدیق کی ہے کہ اولڈ ڈھاکہ کے چوک بازار ایریا کو رہائشی رکھا جائے گا اور یہاں سے تمام کیمیکل گوداموں اور دکانوں کو ہٹا دیا جائے گا۔ ڈھاکا پولیس چیف نے پریس کانفرنس میں بتایا ہے کہ پورے علاقہ کو سیل کردیا گیا ہے اور غیر رہائشی سرگرمیوں والی عمارات کے مالکان کو نوٹس جاری کردیئے گئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ ہر قیمت پر کیمیکل کی دکانیں اور گودام ختم کردیئے جائیں، ورنہ پولیس سخت ایکشن لے گی۔ ڈپٹی پولیس کمشنر ابراہیم خان کا کہنا ہے کہ چوک بازار دن بھر کھچا کچ بھرا رہتا ہے اور یہاں کوئی بڑی گاڑی نہیں آسکتی۔ چھابڑی والوں، ہتھ گاڑی والوں، ٹھیلے اور خوانچہ فروشوں نے علاقے کو اپنے کاروبار کا مرکز بنایا ہوا ہے۔ جبکہ رمضان المبارک میں چوک بازار فوڈ اسٹریٹ بن جاتا ہے۔ جبکہ رہائشی عمارات میں درجنوں کیمیکل گودام اور سینکڑون کیمیکل کی دکانیں قائم ہیں، جن میں ٹنوں کے حساب سے کیمیکل ذخیرہ کرکے رکھا جاتا ہے۔ فائر بریگیڈ ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ذوالفقار رحمن نے تصدیق بتایا ہے کہ شہر کے 31 فائر اسٹیشنوں کے 37 فائر ٹینڈرز کو آگ بجھانے کیلئے بھیجا گیا تھا۔ تاہم آگ دیگر عمارات تک پھیل جانے کے خدشات پر ہیلی کاپٹر سے بھی آگ بجھانے کی کوشش کی گئی، جو بار آور ثابت نہیں ہوئی۔ چار منزلہ عمارت، حاجی وحید مینشن کے پڑوسی تجمل حسین کا کہنا ہے کہ آگ کس طرح لگی، یہ معاملہ پر اسرار ہے۔ کیونکہ کیمیکل کی دکانیں اور گودام تو یہاں عرصے سے ہیں۔ لیکن آگ اچانک لگی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے پوری بلڈنگ کو لپیٹ میں لے لیا۔ باہر کھڑی کاریں بھی جل گئیں۔ آگ کی اطلاع فوری طور پر فائر بریگیڈ ڈپارٹمنٹ کو کردی گئی تھی، لیکن فائر ٹینڈر ایک گھنٹے بعد پہنچے۔ جس کی وجہ سے آگ تیزی سے پھیلی اور اس نے چار منزلہ بلڈنگ کو لپیٹ میں لے لیا۔ دوسری جانب حسینہ واجد حکومت نے عوامی رد عمل کے خوف سے تمام زخمیوں کو پچاس پچاس ہزار اور ہلاک شدگان کے ورثا کو فی کس ایک لاکھ روپے امداد کا اعلان کر دیا ہے۔ جبکہ واقعہ کی تحقیقات کیلئے عدالتی ججوں کے بجائے تین سرکاری حکام، ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشن اینڈ مینٹی نینس دلیپ گھوش، ان کے نائب عبدالحلیم اور اسسٹنٹ ڈائریکٹر صلاح الدین کو مقرر کیا گیا ہے۔ اپوزیشن جماعت بی این پی سمیت متعدد سیاسی پارٹیوں اور سماجی تنظیموں نے کہا ہے کہ حسینہ واجد حکومت کی جانب سے واقعے کے اصل محرکات چھپانے اور ہلاکتوں کے ذمہ دارو ں کو بچانے کیلئے سرکاری افسران پر مشتمل کمیٹی بنائی گئی ہے۔ جبکہ واقعہ کی سنگینی اور 70 افراد کی ہلاکت کے بعد عدالتی ججوں سے تحقیقات کرائی جانی چاہئے تھی۔
ادھر ایک رپورٹ میں بنگلہ دیشی جریدے، پروتھوم آلو نے بتایا ہے کہ پرانے ڈھاکا کا تین سو برس قدیم یہ علاقہ چوک بازار کہلاتا ہے، جو مغلیہ دور حکومت میں تعمیر کیا گیا تھا۔ پھر انگریز دور میں اس بازار کو مزید ڈیولپ کیا گیا۔ لیکن حالیہ 30 برسوں میں یہاں متواتر تعمیرات اور رہائشی عمارات میں کیمیکل کی دکانوں اور گوداموں نے اس علاقے کو ’’دھماکا خیز زون‘‘ میں تبدیل کردیا تھا۔ حکومت اس علاقے سے کیمیکل کی دکانوں اور گوداموں کو خالی کرانا چاہتی تھی۔ گزشتہ دو برسوں میں کیمیکل کے تاجروں کو متعدد بار نوٹس جاری کئے گئے تھے کہ وہ اپناکیمیکل کا کاروبار شہر کے صنعتی زون میں منتقل کرلیں۔ لیکن صنعتی اداروں کیلئے وافر مقدار میں کیمیکل سپلائی کرنے والے تاجروں نے اس حکم نامہ کو ’’نوٹوں تلے‘‘ دبا دیا تھا۔ اے ایف پی کے مقامی نمائندے کا کہنا ہے کہ حکومت نے پورے علاقے کو سیل کردیا ہے۔ جمعرات کو بھی لاشوں کی تلاش اور امدادی کام جاری تھا۔ ایک قریبی پان شاپ کے مالک حاجی عبد الکبیر نے بتایا ہے کہ یہ کیمیکل کی آگ تھی، جس سے لوگو ں کا دم گھٹ گیا۔ ان کی پان شاپ بھی جل کر کوئلہ ہوگئی اور انہوں نے بھاگ کر اپنی جان بچائی تھی۔
٭٭٭٭٭