امت رپورٹ
مشترکہ اعلامیہ میں پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان کا نام شامل کرانے کے لئے بھارت 9 گھنٹے تک سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو جال میں پھنسانے کی کوشش کرتا رہا۔ معتبر ذرائع کے مطابق اس سلسلے میں پاکستان نے بھارت جانے سے پہلے ہی سعودی ولی عہد کو بریف کر دیا تھا۔ لہٰذا محمد بن سلمان ذہنی طور پر تیار تھے۔ دوسری جانب بھارت کا جنگی جنون ٹھنڈا کرنے کے لئے عالمی دبائو بتدریج بڑھ رہا ہے۔ ذرائع کے بقول اس حوالے سے اب تک امریکہ دو خفیہ پیغامات دہلی کو بھیج چکا ہے۔ جس میں تحمل کی ہدایت کی گئی ہے۔ سعودی ولی عہد بھی بھارتی وزیر اعظم کو جاتے ہوئے اسی نوعیت کا مشورہ دے کر گئے ہیں۔ دوسری جانب اقوام متحدہ نے دوسری بار پاکستان اور بھارت سے کشیدگی کم کرنے کا کہا ہے۔ دہلی میں موجود ذرائع کا کہنا ہے کہ مودی دو طرفہ دبائو کا شکار ہیں۔ ایک طرف محتاط رہنے کا عالمی پریشر ہے تو دوسری جانب کچھ کرنے کا عوامی دبائو انتہا پر ہے۔
معتبر ذرائع نے ’’امت‘‘ کو بتایا کہ بھارت اور سعودی عرب کے مشترکہ اعلامیہ میں پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان کا ذکر شامل نہ کئے جانے میں سعودی ولی عہد کو دی جانے والی بریفنگ نے کام دکھایا۔ ذرائع کے مطابق مشترکہ اعلامیہ کی تیاری کے دوران محمد بن سلمان نے نہ صرف پاکستانی بریفنگ کو ذہن میں رکھا۔ بلکہ پاکستان کی ایما پر وزیر اعظم مودی کو یہ مشورہ بھی دیا کہ اس وقت پاک بھارت کشیدگی خطے کے امن اور دونوں ممالک میں کی جانے والی مجوزہ سعودی انوسٹمنٹ کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ دہلی میں موجود صحافتی ذرائع نے بتایا کہ مشترکہ اعلامیہ سے قبل چلنے والا اجلاس 9 گھنٹے طویل ہوگیا تھا۔ اس دوران بھارتی وزارت داخلہ کی ٹیم کا اصرار تھا کہ پلوامہ حملے کے حوالے سے پاکستان کی مذمت کی شق بھی اعلامیہ کا حصہ بنائی جائے۔ تاہم سعودی وفد کے مسلسل انکار پر بھارتی ذمہ داران کی طرف سے تجویز رکھی گئی کہ مذمت کا لفظ شامل نہیں کرتے۔ تاہم دہشت گردی کے خاتمے کا ذکر پاکستان کا نام لے کر کر دیا جائے۔ لیکن سعودی وفد اس پر بھی راضی نہ ہوا تو پھر بھارتی وزارت خارجہ کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ بعد ازاں باہمی اتفاق سے اعلامیہ میں پاکستان کا نام لئے بغیر یہ پیراگراف شامل کیا گیا کہ دہشت گردی سے موثر انداز میں نمٹنے اور کسی بھی صورت دہشت گردی کی حمایت کرنے والے ممالک پر دبائو ڈالا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق اس دوران تین بار مشترکہ اعلامیہ کو ایڈٹ کرنا پڑا۔ مشترکہ اعلامیہ کے انتظار میں بھارتی وزارت خارجہ کی عمارت کے باہر موجود ایک رپورٹر نے بتایا ’’اجلاس طویل ہوتا جارہا تھا۔ وزارت خارجہ کے باہر موجود صحافیوں کی ایک بڑی تعداد اس طوالت پر بور ہو چکی تھی اور سب کو شدت سے اعلامیہ کا انتظار تھا۔ جب سات گھنٹے گزر گئے تو رپورٹرز کے درمیان چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں۔ بالآخر 9 گھنٹے بعد مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا تو اس میں پاکستان کا ذکر شامل نہیں تھا۔ جس پر بالخصوص دائیں بازو کے صحافیوں نے حکومت پر کڑی تنقید کی‘‘۔
معروف دفاعی تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل (ر) امجد شعیب نے تصدیق کی ہے کہ ممکنہ بھارتی کوشش کے حوالے سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کو پہلے ہی بریفنگ دے دی گئی تھی۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے جنرل امجد شعیب کا کہنا تھا ’’یہ ریکارڈ کی بات ہے کہ جب بھی کوئی سربراہ مملکت یا اہم غیر ملکی شخصیت بھارت کا دورہ کرتی ہے تو وہ اس کے سامنے پاکستان کا رونا دھونا لازمی کرتے ہیں۔ اور مشترکہ اعلامیہ میں یہ ضرور لکھواتے ہیں کہ ہمسایہ ملک کو دہشت گردی نہیں کرنی چاہئے اور اگر بھارت کی کوئی حامی شخصیت دورہ کر رہی ہو تو وہ پاکستان کا نام بھی شامل کرا دیتے ہیں۔ چونکہ ہمیں اندازہ تھا کہ پلوامہ حملے کے تناظر میں سعودی ولی عہد سے بھی بھارت پاکستان مخالف بیان دلانے کی کوشش کرے گا۔ لہٰذا ہم نے پہلے ہی اس سلسلے میں محمد بن سلمان کو بریف کر دیا تھا اور بتادیا تھا کہ پلوامہ حملے سے متعلق بھارت کے پاس کسی قسم کے ثبوت نہیں ہیں۔ بعدازاں نہ صرف سعودی ولی عہد نے اس بات کو ذہن میں رکھا اور مشترکہ اعلامیہ میں پاکستان کا ذکر نہیں ہونے دیا۔ بلکہ سعودی وزیر خارجہ نے بھی ایک انٹرویو کے دوران پلوامہ حملے کے حوالے سے یہ کہہ کر پاکستان کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا کہ جب کسی قسم کے ثبوت نہیں تو وہ یہ بات کیوں کہیں؟‘‘۔
ادھر بھارتی جنگی جنون کو ٹھنڈا کرنے کے لئے مودی سرکار پر عالمی دبائو بتدریج بڑھ رہا ہے۔ اس سلسلے میں امریکہ اب تک دو خفیہ پیغام بھارت کو بھیج چکا ہے۔ قبل ازیں پلوامہ حملے پر مائیک پومپیو اور امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی سے یوں محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے واشنگٹن کسی ایڈونچر کے لئے بھارت کو خود شہ دے رہا ہے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ اب ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے بھارت کو کسی قسم کی مہم جوئی سے گریز کے پیغامات بھیجے گئے ہیں اور یہ میسجز امریکہ نے پاکستان کی محبت میں نہیں بلکہ اپنے مفادات کے تحت بھیجے ہیں۔ ذرائع کے بقول اس وقت بین الاقوامی سفارتی کوششوں کا مرکز افغانستان ہے۔ ایسے میں پاک بھارت کشیدگی کو امریکہ اپنے مفاد میں نہیں سمجھتا۔ امریکہ کو خدشہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان تنائو بڑھنے سے افغان امن عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ جس کی بات چیت کا اگلا رائونڈ 25 فروری کو شیڈول ہے۔ ذرائع کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ اس سلسلے میں جلد سے جلد کسی معاہدے کی خواہاں ہے۔ تاکہ اسے افغانستان سے ’’عزت‘‘ کے ساتھ نکل جانے کا موقع مل جائے۔ واشنگٹن میں ایک تھنک ٹینک سے منسلک ذریعے کا کہنا ہے کہ صدر ٹرمپ کو افغانستان سے نکلنے کی اس قدر جلدی ہے کہ پنٹاگون کو یہ خدشہ لاحق ہوگیا ہے کہ اگر طالبان سے معاہدے میں مزید تاخیر ہوئی تو کہیں صدر ٹرمپ کوئی روڈ میپ طے کئے بغیر ہی شام کی طرح افغانستان سے فوج بلانے کا اعلان نہ کر دیں۔ ذریعے کے بقول پنٹاگون افغانستان سے نکلنے کے لئے ایسے محفوظ راستے کا خواہش مند ہے، جس میں امریکی شکست کا تاثر نہ ابھرے اور جانے سے پہلے وہ کابل میں کوئی ایسا سیٹ اپ بنا جائے، جس میں امریکی مفادات کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے۔
پاک بھارت کشیدگی کم کرانے کے لئے اقوام متحدہ کی کوششیں بھی تیز ہوگئی ہیں۔ پلوامہ حملے کے بعد سے اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنر انتونیو گیوتیرس کی جانب سے دوسرا بیان سامنے آیا ہے۔ جس میں کہا گیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو با معنی باہمی کوششوں کے ذریعے اپنے اختلافات حل کرنے چاہئیں۔ ذرائع کے مطابق جاری کردہ بیانات کے علاوہ اقوام متحدہ دونوں ممالک کی کشیدگی ختم کرنے کے لئے پس پردہ کوششیں بھی کر رہا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان کی جانب سے اقوام متحدہ کو لکھے جانے والے خط کا کردار بھی ہے۔ ذرائع کے مطابق سعودی عرب بھی اس تنائو کو ختم کرانے کا خواہشمند ہے۔ کیونکہ جس بڑے پیمانے پر وہ دونوں ممالک میں سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے، ایسے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان کوئی ایڈونچر ہوتا ہے اور پھر اس کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات مزید بگڑ جاتے ہیں تو اس کا اثر سعودی انوسٹمنٹ کے منصوبوں پر بھی پڑ سکتا ہے۔ ادھر بھارت کے بعض انتہا پسند تصور کئے جانے والے دانشور بھی اپنی حکومت کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ ان میں بھارتی فوج کے ریٹائرڈ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایچ ہودا شامل ہیں۔ بھارتی ریٹائرڈ فوجی جنرل پلوامہ حملے پر پاکستان کے خلاف کسی قسم کے ردعمل میں احتیاط برتنے کی تجویز دیتے ہوئے یہ کہہ چکے ہیں کہ مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کرنے کے لئے مصالحت کی راہ اختیار کی جائے۔ یہ وہی بھارتی جنرل ہیں، جنہوں نے اڑی حملے کے بعد اپنی کمان میں پاکستان پر سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا۔ تاہم یہ دعویٰ بے بنیاد نکلا تھا۔
اصل سوال یہ ہے کہ بھارت کو کسی مہم جوئی سے روکنے سے متعلق عالمی کوششیں کس قدر کامیاب ہوتی ہیں؟ اس بارے میں جنرل امجد شعیب کا کہنا ہے کہ دو تین روز پہلے جب بھارتی میڈیا میں اس نوعیت کی خبریں تواتر سے آرہی تھیں کہ بارڈر پر بھارتی فوج کی نقل و حرکت بڑھ گئی ہے تو انہیں انٹیلی جنس ذرائع نے بتایا تھا کہ یہ جعلی نیوز ہیں۔ فی الحال بارڈر پر بھارتی فوج کی کوئی غیر معمولی موومنٹ دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ لیکن حتمی طور پر نہیں کہا جاسکتا کہ مہم جوئی کے حوالے سے بھارت نے اپنا ذہن یکسر تبدیل کرلیا ہے۔ مودی نے اپنا پہلا الیکشن پاکستان مخالف مہم چلاکر جیتا تھا۔ اسی طرح پلوامہ حملے کو لے کر اگلے الیکشن کے لئے بھی بی جے پی حکومت نے اپنے عوام میں بہت زیادہ hype create کر دی ہے۔ اب اس کو ٹھنڈا کرنا مودی کے لئے آسان نہیں۔ جب اڑی حملے کے بعد بھارتی حکومت نے hype create کی تھی تو اپنے لوگوں کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے اسے سرجیکل اسٹرائیک کا ڈرامہ کرنا پڑا تھا۔ اس وقت بھی یہی صورتحال ہے۔ بلکہ بھارتی عوام میں پہلے سے زیادہ جنگی جنون پیدا کر دیا گیا ہے۔ لہٰذا بھارت کچھ نہ کچھ کرنا چاہتا ہے۔ یہ ماضی کی طرح کا جعلی سرجیکل اسٹرائیک بھی ہوسکتا ہے۔ جبکہ دہشت گردی کی کسی کارروائی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔
٭٭٭٭٭