حکایات مولانا رومی

رزق کی فکر
ایک جنگلی گائے صبح سویرے صاف ستھرا سبز گھاس کھانے کے لئے نکل جاتی۔ سر سبز و شاداب جزیرے میں دن بھر مزے مزے سے چرتی رہتی۔ جب خوب پیٹ بھر جاتا اور اس کا جسم توانا ہوجاتا تو پھر اپنے ٹھکانے پر واپس آجاتی۔ رات کو وہ اس فکر میں مبتلا ہو جاتی کہ آج تو میں سرسبز اور خوبصورت گھاس کھا آئی ہوں، کل کیا کروں گی۔ ساری رات وہ اس غم میں گھلتی رہتی۔ خدا معلوم اگلے روز گھاس کھانے کو ملے یا نہ ملے۔ اگلے دن کی خوراک کی فکر جب اس کو دامن گیر ہوتی تو اس غم میں صبح تک پھر سوکھ کر کمزور ہو جاتی…
دوسرے دن صبح سویرے جب پھر اس جزیرے میں مریضہ ہوس پہنچتی تو بڑی حرص کے ساتھ چارہ کھانے لگتی۔
سارا دن وہ سرسبز و شاداب گھاس کھاتی رہتی۔ جب واپس پہنچتی تو رات کو پھر اس غم میں گھلنے لگتی کہ وہ اگلے روز کیا کھائے گی، خوراک کی فکر پھر اس کو دامن گیر ہو جاتی۔ اس بخار میں رات کو پھر کمزور ہو جاتی…
کل کی فکر میں اس کی زندگی کا بیشتر حصہ ایسے ہی گزر گیا۔ اسے یہ سمجھ نہ آئی کہ وہ کسی دن بھی تو بھوکی نہیں رہی۔ وہ اس فکر سے اپنا پیچھا نہ چھڑا سکی اور اس طرح اپنے حال کو ہمیشہ مستقبل کی فکر کر کے خراب اور خستہ حال بناتی رہی۔ ’’گائے نما‘‘ اس انسان کو بھی یہ بات سمجھ نہ آتی کہ جب خالق کائنات ہر روز اس کی روزی کا سامان خود مہیا کر دیتا ہے تو پھر کل کی فکر میں گھلنے کی کیا ضرورت ہے۔
اگر کوئی تھوڑا بہت غور کی زحمت کرے تو ہمیں پتا چل جائے گا کہ یہ گائے انسان کا نفس ہے اور سرسبز جنگل یہ دنیا ہے۔ رازق اپنی مخلوق کو ہر روز اپنے وعدے کے مطابق رزق ضرور عطا کرتا ہے، لیکن یہ کم عقل، بدفطرت اور حرص و ہوس کا مارا ہوا آدمی پھر اسی فکر میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ ہائے! کل کیا کھاؤں گا۔ ارے خدا کی عطا کر دہ عقل سے یہ تو سوچ کہ روز پیدائش سے لے کر اب تک تو برابر کھا رہا ہے، تیرے اس رزق میں کمی نہیں آئی تو خدا نے چاہا تو مستقبل میں بھی تیرے رزق کا وہی ضامن ہے۔ جس نے تجھے اب تک دیا ہے، آئندہ بھی دے گا۔
سالھا خوردی و کم ناید زخورد
ترک مستقبل کن و ماضی نگرد
درس حیات:
٭ تو سالہا سال سے کھا رہا ہے اور تیرے رزق میں کمی نہیں آئی، پس تو کل کی فکر کو ترک کر اور ماضی سے سبق لے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment