تثلیث سے توحید تک

نومسلمہ فاطمہ (سابقہ ماری لویزان) ناروے کے دارالحکومت اوسلو کی رہنے والی ہیں۔ ان کے والد صحافی تھے اور والدہ فلمی اداکارہ اور گلوکارہ تھی۔ ان کی زندگی ایسی پراگندہ گزر رہی تھی، جس میں قواعد و ضوابط نام کی کوئی چیز نہیں تھی اور نہ ہی اس زندگی کا کوئی مقصد تھا۔
وہ اپنے بارے میں کہتی ہیں: یہ ان کی نوعمری کی بات ہے کہ دوسری دنیا و کائنات کے بارے میں مختلف سوالات ان کے ذہن میں پیدا ہوتے رہتے تھے۔ مسیحی ہونے کے باوجود ان کے والد عملاً ملحد تھے، مگر وہ خود ملحد نہیں تھیں۔ تاہم عیسائی مذہب پر عمل کرنا بسا اوقات مشکل محسوس ہوتا تھا، ذہن تثلیث کا عقیدہ قبول نہیں کرتا تھا۔ خاص خاص موقعوں پر دل بہلانے کے لیے وہ کلیسا جاتیں، ان کا کلیسا میں جانا عقیدت کی بنیاد پر نہیں، محض اکتاہٹ دور کرنے اور ماحول کی تبدیلی کے خیال سے ہوتا۔ پھر جس چیز نے ان کی زندگی میں انقلاب برپا کیا اور اسلام کے بارے میں ان کو سوچنے پر مجبور کیا، وہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنی ایک ہم وطن سہیلی کے حالات میں جس نے مراکش کے ایک مسلمان سے شادی کر لی تھی، پہلے کے مقابلے میں کافی تبدیلی محسوس کی، اس کی شخصیت، طرز عمل اور افکار و خیالات میں بہت بڑی خوش گوار تبدیلی رونما ہو چکی تھی۔ ماری نے اپنی زندگی اور اپنی سہیلی کی اسلام کے بعد کی زندگی میں بہت فرق محسوس کیا۔ ماری اپنی سہیلی کو خوب اچھی طرح جانتی تھی۔ وہ اس بات سے بھی واقف تھی کہ پہلے اس کی زندگی کا نہ کوئی مقصد تھا اور نہ ہی کوئی ہدف۔ ماری سے اس کی سہیلی نے اسلام کے متعلق کوئی گفتگو نہ کی، لیکن اس کا سلوک بتا رہا تھا کہ ان کی زندگی اب دوسرے انداز کی ہے۔ ماری نے اپنی سہیلی سے ایک دن خود ہی گفتگو کا آغاز کیا۔ گفتگو کا آغاز اسلام ہی سے ہوا۔ ماری کو اس کی سہیلی نے مریم جمیلہ کے اسلام قبول کرنے کی کہانی سنائی اور پھر ان کی کتابوں کا ایک پیکٹ بھی دیا۔ ماری نے مریم جمیلہ کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا۔ ان کتب میں ان کو ان تمام سوالوں کے جو زندگی کے کسی بھی گوشے سے تعلق رکھتے تھے، خواہ عقیدہ سے متعلق ہوں یا معاشرتی اور سیاسی زندگی سے، سارے سوالوں کے تشفی بخش جوابات حاصل کرلیے۔ اس کے بعد ماری نے قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنا شروع کیا۔ جس وقت وہ قرآن کریم کے ترجمہ سے فارغ ہوئیں، ان پر حق و باطل کا فرق واضح ہوچکا تھا، چنانچہ انہوں نے کلمہ شہادت پڑھ لیا، نماز شروع کر دی اور اپنا نام بدل کر فاطمہ رکھ لیا۔ فاطمہ نے ویلز میں مبلغینِ اسلام کی ایک جماعت کے بارے میں واقفیت حاصل کی، جس کے سرخیل ڈاکٹر محمد المشروق (عمید کلیہ الدینیات) ہیں۔ اسی طرح ویلز میں ایک اور تنظیم (شباب الدعوۃ) سے واقفیت حاصل کی، جس کے ارکان مختلف شرعی اداروں میں لیکچرز دینے میں ہمہ تن مشغول رہتے ہیں تاکہ یورپی مسلمانوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہوں جو اسلام کی دعوت کا کام کرنے والے ہوں۔ ان حلقوں سے ماری نے معلومات حاصل کیں اور جب ماری اسلامی ثقافت اور علم سے پوری طرح واقف ہوگئیں تو وہ ایک مصری مسلمان سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوگئیں، جو یورپ میں انجینئر کے عہدہ پر فائز ہیں۔ اب انہوں نے پردہ کرنا بھی شروع کر دیا ہے۔ اس طرح فلمی زندگی کی گندگیوں میں مبتلا گھرانے کی بیٹی کا دل اسلام کے نور سے منور ہوگیا۔ ان کے دو لڑکے اور ایک لڑکی ہے۔ اب ان کی کوشش یہ ہے کہ ہر شخص کے ساتھ ان کا معاملہ اسلامی طرز کا ہو، جس کے ذریعے وہ لوگوں کو اسلام کی دعوت دے سکیں۔ جس وقت وہ اپنے قاہرہ کے گھر میں داخل ہوئیں، انہیں وہاں کا ماحول بڑا پرکشش معلوم ہوا۔ اطمینان و سکون اور بشاشت و مروت کا ماحول تھا جس کا انہیں پہلے تجربہ نہ تھا۔ وہ بہت مسرور تھیں کہ وہ اسلامی تعلیمات پر پوری طرح عمل پیرا ہیں۔ لیکن جس وقت ان کو نئے سرے سے شرعی احکامات کا علم ہوا، وہ بہت زیادہ خوشی محسوس کر رہی تھیں، عربی پر قدرت نہ ہونے کے باوجود اس دین کے لیے شوق ان کے اعصاب کی مضبوطی ظاہر کر رہا تھا، ان کی ساس نے بتایا کہ فاطمہ مصر کی دوسری مسلمان عورتوں سے زیادہ اسلام کی پابند ہے، اور فاطمہ ان کی بہوئوں سے کہتی ہیں کہ تم لوگوں کو ایسی عظیم نعمت ملی ہوئی ہے لیکن تم اس کی اہمیت سے ناواقف ہو۔ وہ عبادات اور صدقات کا بڑا اہتمام کرتی ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ ان کے بچے اسلامی ماحول میں رہیں اور وہیں پرورش پائیں، اس لیے کہ اگر وہ ناروے کے عیسائی ماحول میں واپس جائیں گے تو اس سے متاثر ہو جائیں گے اور ان کی دینی پختگی میں کمی آجائے گی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment