برطانوی اسکول کی غیر اخلاقی تعلیم پر مسلمان والدین مشتعل

ایس اے اعظمی
ہم جنس پرستی کی تعلیم دینے والے برطانوی اسکول کے خلاف مسلمان والدین مشتعل ہوگئے۔ برمنگھم کے پارک لینڈ کمیونٹی اسکول میں ہم جنس پرستی کے اسباق پڑھانے پر بیشتر عیسائی بچوں کے والدین نے بھی احتجاج کیا ہے۔ دوسری جانب متعصب اسکول انتظامیہ نے احتجاج کرنے والے مسلم گھرانوں کو ’’مشورہ‘‘ دیا ہے کہ اگر انہیں اپنی اقدار کا اتنا ہی خیال ہے تو وہ برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے آبائی ممالک کو لوٹ جائیں۔ اس حوالے سے اسکول کے نائب سربراہ اور حال ہی میں دنیا کے بہترین استاد کا ایوارڈ پانے والے ٹیچر اینڈریو موفٹ نے مسلمان والدین کے احتجاج کو مسترد کرتے ہوئے ان کو’’آئوٹ سائیڈرز‘‘ بھی قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ جمعرات کے روز اسکول کے باہر سینکڑوں والدین، جن میں درجنوں عیسائی بچوں کے والدین بھی شریک تھے، نے مظاہرے کے دوران پوسٹرز اور بینرز اٹھا کر نعرے بازی کرکے احتجاج ریکارڈ کرایا۔ والدین کا کہنا تھا کہ ہم جنس پرستی کی تعلیم سے بچوں کے اخلاق، مذہبی اقدار اور نفسیات کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے۔ برطانوی میڈیا کے مطابق پارک لینڈ کمیونٹی اسکول میں ہم جنس پرستی کے فروغ کیلئے با قاعدہ لیکچرز دیئے جارہے ہیں۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل آن لائن کے مطابق پارک لینڈ کمیونٹی اسکول کی انتظامیہ نے بتایا ہے کہ ان کے خصوصی نصاب کے تحت صنفی طور پر ’’مساوات‘‘ کے اسباق کی تعلیم دی جارہی تھی جس کو مقامی مسلمان اور بعض عیسائی والدین نے سخت نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ اس سلسلے میں برطانوی ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے نصاب کے تحت مذکورہ اسکول میں طلبہ کو کم از کم پانچ اسباق پڑھائے جانے ہیں جن میں شامل مضامین میں شادی کے بغیر زندگی بسر کرنا اور ہم جنس پرستی بھی شامل ہے۔ برمنگھم کے مقامی میڈیا نے بتایا ہے کہ اس معاملہ پر مسلمان طلبہ کی جانب سے کئے جانے والے احتجاج کو اسکول انتظامیہ نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا ہے۔ ان کو دھمکیاں دی گئیں کہ اگر انہوں نے اسکول کی تعلیم اور نصابی پالیسیوں پرکوئی احتجاج کیا تو انہیں اسکول سے نکال دیا جائے گا۔ ادھر جب مسلمان طلبہ نے اس ضمن میں گھر پر تذکرہ کیا تو والدین پریشان ہوگئے اور انہوں نے سینکڑوں کی تعداد میں اکٹھا ہوکر اسکول کا گھیرائو کرلیا۔ لیکن اسکول انتظامیہ نے کسی قسم کے دبائو میں آنے سے انکار کردیا۔ اسکول کے ڈائریکٹر نے اس سلسلے میں والدین کو مطمئن کرنے کے بجائے پولیس کو طلب کرلیا تھا۔ پر امن والدین کے احتجاج کو دیکھتے ہوئے پولیس نے اگرچہ کوئی سخت کارروائی نہیں کی، لیکن والدین کو سمجھا بجھا کر منتشر کردیا گیا۔ دوسری جانب اسکول ایڈمنسٹریشن نے ہم جنس پرستی کے اسباق کو طلبہ کیلئے انتہائی ضروری قرار دیتے ہوئے مسلمان والدین کو کہا ہے کہ کسی بھی ’’آئوٹ سائیڈر‘‘ کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ انگریز قوم کو تہذیب، ثقافت اور اخلاقیات سکھائے۔ اگر ان کو برطانوی حکومت کے نظام تعلیم پر کوئی اعتراض ہے تو برطانیہ کو چھوڑ کر واپس اپنے گھر چلے جائیں۔ پارک لینڈ کمیونٹی اسکول کے حکام کی جانب سے ایشیائی، خلیجی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے مسلمان والدین کو تنگ نظر بھی قرار دیا گیا۔ برطانوی میڈیا کے مطابق اسکول انتظامیہ کے خلاف سینکڑوں والدین نے مظاہرے کے دوران بینرز اور پوسٹرز اٹھائے ہوئے تھے جس میں ہم جنس پرستی کے خلاف نعرے درج تھے۔ پرائمری سیکشن کے ایک طالب علم نوید نے جو پوسٹر اٹھایا ہوا تھا، اس پر لکھا تھا ’’تعلیم دیجئے، لیکن ہمارے عقائد کے خلاف کوئی بری حرکت نہ کریں‘‘۔ ایک خاتون جو اپنے چھوٹے بیٹے کے ساتھ مظاہرے میں شریک تھیں، بینر اٹھا رکھا تھا ’’بچوں کو بے روہ روی کی جانب مت دھکیلئے۔ ہماری اولادیں ہمارا حق ہے‘‘۔ خالد حسین نامی ایک مقامی مسلمان نے رپورٹرز کوبتایا کہ ’’ہم جنس پرستی کی تعلیمات کے ہتھیار سے ہمارے بچوں کو گمراہ کیا جارہا ہے، اس سلسلے کو روکا جاناچاہئے۔ ایجوکیشن سسٹم کی آڑ میں ہمارے بچوں کی اخلاقیات کو ختم کیا جارہا ہے۔ یہ سراسر ظلم ہے اور مسلمان بچوں کو بے راہ روی کے گڑھے میں دھکیلنے کی سازش ہے، جس کو ناکام بنانے کیلئے ہم ہر حد تک جائیں گے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment