محمد قاسم
افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں تعطل کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔ امریکہ نے وعدے کے باوجود طالبان کے پانچ اہم رہنمائوں کے نام ابھی تک بلیک لسٹ سے نہیں نکالے، جس کی وجہ سے افغانستان میں قیام امن کیلئے پیر سے قطر میں ہونے والے مذاکرات میں اہم طالبان رہنمائوں کی شرکت مشکوک ہوگئیہے۔ جبکہ امریکہ نے اپنے 1400 سے زائد فوجیوں کو جنوب مشرقی افغانستان سے نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ ’’امت‘‘ کو دستیاب اطلاعات کے مطابق افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان پیر 25 فروری کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے مذاکرات میں رکاوٹیں پیدا ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ امریکہ نے افغان طالبان کی جانب سے دی جانے والی لسٹ میں شامل افراد کے نام 20 فروری سے قبل بلیک لسٹ سے نکالنے کا وعدہ کیا تھا، جو تاحال پورا نہیں کیا گیا ہے۔ مذاکرات میں دو دن رہ گئے ہیں اور مولوی فاضل، خیر اللہ، مولوی نوراللہ، مولانا عبدالمنان اور مولوی واسق کے نام بلیک لسٹ سے نہیں نکالے گئے ہیں۔ جبکہ ملا برادر کو ابھی تک افغان پاسپورٹ بھی جاری نہیں کیا گیا ہے۔ انہیں ایک پرویژنل آرڈر کے ذریعے سفر کی اجازت دی گئی تھی، جس کی مدت بھی ختم ہوگئی ہے۔ اب ملا برادر قطر میں ہونے والے مذاکرات میں شرکت نہیں کرسکیں گے، جس کی وجہ سے افغان طالبان نے پہلے ہی ملا عباس استنکزئی کو مذاکراتی ٹیم کا سربراہ برقرار رکھا ہے۔ ذرائع کے مطابق طالبان قیادت نے مذاکراتی ٹیم میں رہبری شوریٰ کے بارہ میں سے پانچ اراکین کو شامل کر کے مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کیلئے انہیں مکمل اختیارات دیئے تھے۔ لیکن امریکہ نے طالبان رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نکالنے کے وعدے پر عملدرآمد نہیں کیا، جس کی وجہ سے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات میں تعطل کا خدشہ ہے۔ اس حوالے سے افغان طالبان کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے برسوں پہلے اس وقت افغان طالبان کے اعلیٰ رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ میں شامل کئے تھے، جب دنیا کے متعدد ممالک کی طرح اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھی طالبان کے حوالے سے آگاہی نہیں تھی۔ اس وقت طالبان سیکورٹی کونسل کے بعض رکن ممالک کا خاص ہدف تھے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ افغان طالبان نے ابتدا ہی میں اس اقدام کو غیر منصفانہ قرار دیا تھا اور سلامتی کونسل سے درخواست کی تھی کہ یہ لسٹ تنازع کے حل کیلئے سودمند نہیں ہے، بلکہ اس غیر منصفانہ اقدام نے اقوام متحدہ کے اعتبار کو نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم اِس وقت چونکہ افغان تنازعہ کے پرامن حل کیلئے وسیع پیمانے پر سفارتی تحریک شروع ہوئی ہے، جس میں طالبان اور امریکہ کے نمائندوں نے کئی ملاقاتیں کی ہیں۔ جبکہ افغان طالبان کے نمائندوں کو مختلف ممالک کے دوروں کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ ان ممالک کے نمائندوں سے ملاقاتیں کرکے ان کے سامنے اپنا مؤقف واضح کرسکیں اور افغان تنازع کے حل کی غرض سے اجلاسوں میں شرکت کریں۔ لہذا اب وقت آ گیا ہے کہ بلیک لسٹ کے نام سے یہ غیر ضروری سند ہٹائی جائے۔ اگر اقوام متحدہ، سلامتی کونسل کے رکن ممالک اور خصوصاً امریکا کو افغان تنازعہ کے پرامن حل پر یقین ہے تو مذاکرات کی کامیابی کیلئے بلیک لسٹ کا خاتمہ کیا جائے۔ طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے چند ارکان اسی بلیک لسٹ کی وجہ سے ابوظہبی اجلاس میں مقررہ وقت پر شریک نہیں ہوسکے تھے۔ اسی طرح طالبان کے مذاکراتی وفد کاپاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد دورہ بھی ملتوی ہوا تھا۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ طالبان رہنمائوں کو دنیا بھر میں آزادانہ سفر کا حق دیا جائے، طالبان قیادت اِس بلیک لسٹ کو افغان مسئلے کے پرامن حل میں حقیقی رکاوٹ سمجھتی ہے، جس کا خاتمہ افہام وتفہیم کے ذریعے کیا جائے۔ طالبان کو امید ہے کہ سلامتی کونسل کے رکن ممالک اِس رکاوٹ کو ختم کردیں گے۔
دوسری جانب امریکہ نے جنوب مشرقی افغانستان کے ہلمند اور ارزگان صوبے سے اپنے 1400 سے زائد فوجیوں کو واپس بلانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق یہ فیصلہ ان اطلاعات کے بعد کیا گیا ہے کہ ہلمند میں برطانوی فوج کو ایک ایسے بخار کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے کئی فوجیوں کو جان سے ہاتھ دھونا پڑے، جبکہ اس کے 102 فوجی کسی کام کے قابل نہیں رہے۔ اس وبائی مرض سے امریکی فوجی بھی ڈر گئے ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان امریکی فوجیوں کو نکالنے کے فیصلے کا طالبان اور امریکہ کے مذاکرات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دوسری جانب افغان طالبان کا کہنا ہے کہ وہ موسم بہار میں حملے نہیں روکیں گے اور جب تک ان کے رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ سے نہیں نکالے جاتے، مذاکرات میں بھی پیش رفت مشکل ہوگی۔ کیونکہ اہم فیصلے کرنے والے رہنمائوں کے نام بلیک لسٹ میں شامل ہیں اور انہیں سفر کی اجازت نہیں ہے۔ جبکہ قطر کو بھی مسلسل دبائو میں رکھا جارہا ہے کہ وہ افغان طالبان پر مزید پابندیاں لگائے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ان پابندیوں کا بنیادی مقصد افغان طالبان کو روس، چین، پاکستان اور ایران سے دور رکھنا ہے تاکہ یہ ممالک مذاکرات پر اثر انداز نہ ہوں۔ واضح رہے کہ طالبان اور افغان سیاستدانوں کے درمیان ماسکو میں ہونے والے مذاکرات کے بعد امریکہ کے سابق اتحادیوں حامد کرزئی، یونس قانونی، حنیف اتمر اور دیگر رہنمائوں نے بھی امریکی فوج کے انخلا کا مطالبہ کردیا ہے، جس کی وجہ سے امریکہ کو شدید دبائو کا سامنا ہے۔
٭٭٭٭٭