نجم الحسن عارف
بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کیخلاف لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی پٹیشن پر رجسٹرار نے یہ کہہ کر اعتراض لگا دیا ہے کہ اس سلسلے میں وفاق کو ہدایات نہیں دے سکتے۔ البتہ کسی وزارت کو ہدایات دی جا سکتی ہیں۔ جبکہ پٹیشنر کو وکیل کو اعتراض دور کرنے کیلئے کل (پیر) تک کی مہلت بھی دے دی گئی ہے۔ یہ درخواست لاہور کے رہائشی شیخ محمد لطیف کی طرف سے ندیم سرور ایڈووکیٹ نے دائر کی ہے جس میں وفاق، وزارت تجارت، وزارت اطلاعات، پیمرا اور وفاقی و صوبائی سنسر بورڈ کو فریق بنانے کی استدعا کی گئی ہے۔ واضح رہے حالیہ برسوں کے دوران متعدد درخواستیں ہائی کورٹ میں دائر کی جا چکی ہیں تاکہ بھارتی فلموں کی نمائش روکی جائے۔
ایڈووکیٹ ندیم سرور کے توسط سے شیخ لطیف نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا ہے کہ یہ بنیادی طور پر ملک میں قانون اور آئین کی بالادستی ہے۔ ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے ندیم سرور ایڈووکیٹ نے کہا ’’1980ء میں مارشل لاء آرڈر نمبر 81 کے ذریعے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی لگائی گئی تھی۔ بعد ازاں پیراگراف نمبر 4 کے تحت 1984ء میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا گیا کہ بھارتی فلموں کی نمائش پاکستان میں نہ کی جائے۔ خواہ ان فلموں میں بھارتی اداکار اور اداکارائیں اداکاری کے جوہر دکھاتے ہوں یا پاکستانی اداکاروں یا اداکارائوں نے کام کیا ہو۔ پاکستان میں مذکورہ فلموں کی نمائش نہیں کی جا سکتی ہے۔ ندیم سرور ایڈووکیٹ کے مطابق 2016ء میں وزارت تجارت نے بھی بھارتی فلموں کی درآمد کو منفی فہرست میں شامل کیا، لیکن 2017ء میں نواز لیگ کی حکومت نے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش ممکن بنانے کیلئے فلم انڈسٹری کی بحالی کی آڑ لی اور کہا گیا کہ پاکستان میں فلم انڈسٹری کی بحالی کیلئے ایسا اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ ندیم سرور ایڈووکیٹ کے بقول ’’اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے اس حکم نامے پر دستخط کئے گئے، لیکن وزیراعظم نے اس سلسلے میں کابینہ کو بھی اعتماد میں نہیں لیا تھا، جبکہ ان پر لازم تھا کہ وہ تنہائی میں ایسا کوئی حکم نامہ نہ جاری کریں، کیونکہ فیصلہ کابینہ میں زیر بحث لاتے ہوئے کیا جاتا۔ اس لئے وزیراعظم کی طرف سے جاری کئے گئے اس غیر قانونی حکم کو معطل کرتے ہوئے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش پر پابندی عائد کی جائے۔‘‘
ندیم سرور ایڈووکیٹ نے اپنی درخواست میں عدالت کی توجہ پلوامہ حملے کے بعد بھارت میں پاکستانی شہریوں حتیٰ کہ فنکاروں کے ساتھ روا رکھے جانے والے رویے کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی گلوکار کا گایا ہوا گانا بھی ایک بھارتی فلم سے کٹ کر دیا گیا ہے، جبکہ ایک بھارتی مجسٹریٹ نے کہا ہے کہ جو بھی پاکستانی بھارت میں ہے، اسے واپس چلے آنا چاہئے۔ اس ماحول میں عدالت سے درخواست کی گئی ہے کہ 31 جنوری 2017ء کو وزیراعظم نواز شریف کی طرف سے جاری کئے گئے حکم کو غیر قانونی قرار دیا جائے، کیونکہ اس میں انہوں نے اس سلسلے میں پہلے سے موجود قانون کی خلاف ورزی کی ہے۔ درخواست میں یہ بھی استدعا کی گئی ہے کہ درخواست میں قرار دیئے گئے مدعی نمبر 4 اور 5 کو ہدایات جاری کی جائیں کہ وہ پاکستان میں بھارتی فلموں، شارٹ فلموں اور ٹریلرز کی تقسیم اور نمائش نہ کریں۔ نیز درخواست میں قرار دیئے گئے مدعی نمبر 1 کو حکم دیا جائے کہ وہ مستقل بنیادوں پر پاکستان میں بھارتی فلموں پر پابندی عائد کرے۔
ندیم سرور ایڈووکیٹ نے ’’امت‘‘ سے بات کرتے ہوئے کہا ’’رجسٹرار آفس لاہور سے فون پر بتایا گیا ہے کہ ہماری درخواست پر اعتراض لگایا ہے۔ اعتراض یہ ہے کہ عدالت وفاق کو ہدایات جاری نہیں کرسکتی البتہ کسی وزارت کو ہدایت کی جا سکتی ہے، اس لئے آپ اپنی درخواست میں تبدیلی کریں۔ میں اس سلسلے میں پیر کے روز رجسٹرار آفس سے دوبارہ رجوع کر کے لگائے گئے اعتراض کو دور کر لوں گا۔ مجھے امید ہے کہ اعتراض کے ازالے کے بعد اس درخواست پر عدالتی سماعت ہو گی اور ہم ایک جائز استدعا منظور کرانے میں کامیاب رہیں گے۔ ہماری یہ استدعا کسی ردعمل، تعصب یا نفرت کی بنیاد پر نہیں ہے بلکہ پاکستان کے اس سے پہلے بنے ہوئے قانون پر عمل درآمد کے حوالے سے ہے، جس کی خلاف ورزی کر کے پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی جا رہی ہے۔‘‘ واضح رہے کہ اس سے قبل جولائی 2016ء میں لاہور ہائی کورٹ میں ہی ایک وکیل چوہدری اشتیاق احمد ایڈووکیٹ نے اپنے موکل افتخار ٹھاکر کی طرف سے بھارتی فلموں کی پاکستان میں نمائش کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔ اس درخواست میں ملک کے ممتاز اسٹیج اداکار افتخار ٹھاکر نے موقف اختیار کیا تھا کہ بھارت کشمیریوں پر مظالم ڈھا رہا ہے اور پاکستان میں بھارتی فلم انڈسٹری کو فروغ دیا جا رہا ہے جو کشمیریوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ کشمیر میں بھارتی مظالم بند ہونے تک پاکستان میں بالی ووڈ فلموں کی نمائش پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ بعد ازاں 2018ء کے آخر میں فلم ساز سہیل خان کی طرف سے بھی ایک ایسی ہی درخواست دائر کی گئی کہ پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش کی وجہ سے پاکستان کی فلم انڈسٹری تباہ ہو رہی ہے، اس لئے بھارتی فلموں پر پابندی عائد کی جائے۔
٭٭٭٭٭