عظمت علی رحمانی
کراچی انٹر بورڈ میں ’’پاسنگ مافیا‘‘ دوبارہ سرگرم ہونے لگی ہے۔ ذرائع کے مطابق آڈٹ افسر زاہد احمد لاکھو نے انٹر بورڈ کو سونے کی چڑیا سمجھ کر یہاں اپنی تعیناتی کرائی ہے۔ دوسری جانب محکمہ اینٹی کرپشن نے گزشتہ کئی برس سے کسی بھی بورڈ کے کرپٹ افسر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ جبکہ اینٹی کرپشن کے بعض افسران انکوائریوں کے نام پر من مانے کام کرانے کے حوالے سے شہرت رکھتے ہیں۔
کراچی انٹر بورڈ میں دو روز قبل اینٹی کرپشن ضلع وسطی کے افسران نے فدا چانڈیو کی سربراہی میں لگ بھگ 10 گھنٹے تک چھاپہ مار کارروائی کی اور جوابوں کی 132 کاپیاں اپنے ساتھ لے گئے جن میں پری انجنیئرنگ کی 87 کاپیاں، پری میڈیکل کی 38 اور سائنس جنرل کی 7 کاپیاں شامل تھیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ چھاپہ با اثر افسر زاہد احمد لاکھو ولد فتح محمد کی ایما اور مکمل مشاورت سے لگایا گیا تھا، جس کی کال ہسٹری ریکارڈ بھی سامنے آگئی ہے۔ زاہد احمد لاکھو کے ذریعے اینٹی کرپشن حکام نے چند روز قبل انٹر بورڈ کے کنٹرولر کو گورنمنٹ گرلز کالج سعود آباد ملیر کی پری انجنیئرنگ سیکنڈ ایئر کی طالبہ در شہوار چانڈیو رول نمبر 564548 کو پاس کرانے کیلئے سخت دباؤ بڑھایا تھا۔ معلوم رہے کہ آڈٹ افسر نے اینٹی کرپشن اہلکاروں کو کنٹرولر عظیم صدیقی میں کمرے میں لاکر انہیں کہا کہ ان کے دو رول نمبرز ہیں، ان کو پاس کرنا ہے جس پر کنٹرولر نے اسے کہا کہ فی الوقت وہ یہاں سے جائیں، بعد میں بات کریں گے۔ اس کے بعد زاہد احمد لاکھو کے اس غیر قانونی اقدام کی رپورٹ چیئرمین انٹر بورڈ پروفیسر انعام احمد کو کی گئی۔ تاہم انہوں نے اب تک اپنے لاڈلے افسر زاہد احمد لاکھو کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ معلوم رہے کہ اینٹی کرپشن حکام کی جانب سے در شہوا رچانڈیوکو پاس کرنے کیلئے دباؤ ڈالا جارہا ہے۔ جبکہ گزشتہ روز اینٹی کرپشن حکام مذکورہ طالبہ کی کاپیاں بھی اپنے ساتھ لے گئے ہیں۔ اس طالبہ کی فرسٹ ایئر کی کاپیاں بھی ریکارڈ سے غائب ہیں۔ در شہوار چانڈیو کی ایوارڈ لسٹ کے مطابق اس نے گیارہویں میں ریاضی میں11 نمبر اور سیکنڈ ایئر رول نمبر 385357 کے تحت میں ریاضی میں 3 نمبر حاصل کئے جبکہ باقی مضامین میں اس کے نمبرز ڈی گریڈ کے مطابق ہیں۔
کراچی انٹر بورڈ کے خلاف ضابطہ تعینات ہونے والے آڈٹ افسر زاہد احمد لاکھو کی بیٹی فائزہ زاہد نے پری میڈیکل میں گیارہویں جماعت کا امتحا ن 2016ء میں دیا تھا جس میں اسے 472 نمبر دے کر اے گریڈ دیا گیا تھا۔ اس کے بعد 2017ء میں اس نے سیکنڈ ایئر کا امتحان دیا جس میں فائزہ زاہد کو 695 نمبر دے کر گریڈ بی میں پاس کیا گیا، جس کے بعد زاہد لاکھو نے گزشتہ سال بیٹی کو دوبارہ امپرومنٹ آف ڈویژن کے تحت امتحان دلوایا جس میں 775 نمبر دلوا کر اسے اے گریڈ میں پاس کیا گیا۔ فائزہ زاہد نے سابقہ دونوں امتحان گورنمنٹ گرلز ہائر سکینڈری اسکول یونیورسٹی روڈ سے دیئے۔ جبکہ آخری بار پرائیویٹ امتحان دیا۔ جس کے بعد فائزہ کی بوٹنی، زولوجی اور انگریزی کی کاپیاں ہی بورڈ کے ریکارڈ سے غائب کرادی گئی ہیں۔
زاہد احمد لاکھو کے قریبی دوست ایف بی آر کے افسر ظفر بلوچ کی بیٹے کو جس کا رول نمبر 76938 تھا، اس نے اسکروٹنی کیلئے درخواست جمع کرائی تھی جس کے بعد ٹیچر نے اسکروٹنی کی اور اردو کے مضمون میں نمبر 26 سے بڑھا کر 30 کئے گئے۔ اس کیلئے باقاعدہ ڈپٹی کنٹرولر سائنس جنرل فیکلیٹی کے ڈپٹی کنٹرولر عظیم صدیقی سے اپرول لینی تھی جنہوں نے کاپی پر ’’تبدیلی نہیں کرنی‘‘ لکھ کر انکار کردیا تھا، جس کے بعد پری میڈیکل اور پری انجنیئرنگ فیکلیٹی کے ڈپٹی کنٹرولر ہادی حسن نے سمری اپنے دستخط سے 11نومبر 2018ء کو چیئرمین انٹر بورڈ پروفیسر انعام احمد کو بھیجی۔ پروفیسر انعام احمد نے 15 نومبر 2018ء کو نمبر تبدیل کرنے کی اجازت دی اور یوں زاہد احمد لاکھوکے دوست ظفر بلوچ کے بیٹے کو اردو کے پیپر میں پاس کردیا گیا تھا۔
معلوم رہے کہ جب کوئی بھی افسر ’’نو چینج‘‘ لکھ دیتا ہے تو اس کے بعد دوبارہ کاپی چیک نہیں ہو سکتی۔ تاہم اسسٹنٹ کنٹرولر پری میڈیکل اسلم چوہان نے کاپی اپنے دوست پروفیسر ارشد عباس زیدی سے چیک کروا کے نمبر بڑھا دیئے اور کاپی بورڈ میں جمع کرادی تھی۔ حیرت انگیز طور پر پروفیسر ارشد عباس زیدی نے سائنس جنرل کی کوئی بھی کاپی چیک ہی نہیں کی۔
عظیم احمد کی بیٹی مصباح عظیم نے رولن مبر 817082 کے تحت 2018ء میں پری میڈیکل کا امتحان دیا تھا۔ فزکس میں مصباح عظیم کے 27نمبر آئے جس کی وجہ سے وہ فیل ہو گئیں جس کے بعد اس کی اسکروٹنی جمع کرائی گئی جس میں اس کو 9 نمبر بڑھا کر 36 کردیئے گئے اور مصباح بی گریڈ میں پاس ہو گئی۔ معلوم رہے کہ یہ وہی سال ہے جس میں عظیم احمد کنٹرولر انٹر بورڈ تعینات تھے۔ اس سے قبل جب وہ سیکریٹری بورڈ تھے، تب ان کی بیٹی فسٹ ایئر میں فیل ہو گئی تھی۔ اسے گیارہویں میں فزکس میں 7 نمبر ملے تھے جس کے بعد سیکنڈ ایئر میں اس نے گیارہوں کی فزکس کو 36 نمبر لے کر پاس کیا تھا۔
انٹر بورڈ میں اینٹی کرپشن نے سابق کنٹرولر عمران چشتی کے دور میں بھی انکوائری کی تھی جس میں انہوں نے چالان بھی جمع کیا۔ اس میں بورڈ کے ملازمین جن میں سابق کنٹرولر محمد جعفر، سابق چیئرمین اختر غوری، سابق چیئرمین انوار احمد زئی، سابق کنٹرولر عظیم احمد، سابق کنٹرولر عمران چشتی، ڈپٹی کنٹرولر برائے پری میڈیکل و پری انجنیئرنگ ہادی حسن، انسپکٹر آف کالجز راشد قدوائی کے نام شامل کئے گئے تھے۔ تاہم اب تک ان افسران کو گرفتار نہیں کیا گیا، سب نے ضمانتیں حاصل کررکھی ہیں۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے و الی دستاویزات کے مطابق 3 اگست 2016ء کو زاہد احمد لاکھو ولد فتح محمد کو اعلیٰ سفارش پر انٹر بورڈ میں آڈٹ افسر تعینات کیا گیا تھا۔ معلوم رہے کہ انٹر بورڈ آڈٹ افسر کی پوسٹ ٹرن اور پوسٹ ہے ، جہاں پر کوئی بھی افسر صرف دو سال کے لئے تعینات کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ زاہد احمد لاکھو نے خلاف ضابطہ طور پر انٹر بورڈ کراچی میں اپنی تعیناتی کرائی ہے۔ انٹر بورڈ گزٹ کے صفحہ نمبر 17 کی شق 4 اے کے مطابق آڈٹ افسر کی پوسٹ مستقل پوسٹ نہیں ہے بلکہ یہاں پر دو سال کیلئے کسی بھی افسر کو تعینات کیا جائے گا۔ آڈٹ افسر زاہد لاکھو کی تعیناتی پر بورڈ آف گورنرز کے اہم ممبر اور سکھر بورڈ کے چیئرمین نے اعتراض بھی کیا تھا۔ زاہد احمد لاکھو کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ سب سے پہلے مین پاور اینڈ ٹریننگ محکمہ محنت سندھ میں بھرتی ہوا تھا جس کے بعد زاہد لاکھو محکمہ محنت کے مینجمنٹ بورڈ آف ایجوکیشن میں چلا گیا۔ اس محکمہ کو بعد میں ورکر ویلفیئر بورڈ میں ضم کردیا گیا تھا، جہاں سے ڈیپوٹیشن پر میر پور خاص انٹر میڈیٹ میں اسسٹنٹ اکاؤنٹ آفیسر کے عہدے پر خلاف ضابطہ تعینات ہونے کی کوشش کی تھی۔ وہاں محکمہ لیبر کا ٹھیکدار جاوید چیمہ اس کو میر پور خاص بورڈ میں لے گیا تھا۔ تاہم میر پور خاص بورڈ خاص بورڈ میں غیر قانونی طور پر گریڈ 17میں ڈیپوٹیشن پر اسسٹنٹ اکاؤنٹ آفسیر کے طور پر تعیناتی کو میر پور خاص بورڈ کے ناظم امتحانات چیلنج کردیا تھا، جس پر معاملہ عدالت پہنچ گیا تھا۔ یوں عدالت کے استفسار پر زاہد احمد لاکھو کے اصل محکمے سندھ ورکر ویلفیئر بورڈ نے اس کو این او سی جاری کرنے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کیا تھا۔ جس کے بعد سندھ ہائی کورٹ نے اس کو واپس سندھ ووکر ویلفیئر بورڈ بھیجنے کا حکم دیا تھا۔ جس کے بعد اس نے سیاسی اثر رسو خ استعمال کرکے ڈیپوٹیشن پر ایس ٹیوٹا میں تعیناتی کرالی تھی۔ وہاں پر بھی مستقل ملازمت کے بجائے اس نے وزیر اعلی سندھ ہائوس میں اثر و رسوخ استعمال کرکے اپنی تعیناتی جعلی دستاویزات کی بنیاد پر انٹر بورڈ کراچی میں کرالی۔ اس حوالے سے ’’امت‘‘ نے چیئرمین انٹر بورڈ پروفیسر انعام احمد سے رابطہ کیا جنہوں نے فون ریسیو نہیں کیا۔ جبکہ زاہد احمد لاکھو سے متعدد بار رابطے کی کوشش کی گئی، تاہم ان کا نمبر مسلسل بند رہا۔٭
٭٭٭٭٭