احمد نجیب زادے
اقوام متحدہ کے عالمی ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر نے انتباہ کیا ہے کہ بحر احمر، سعودی، سوڈانی اور مصری خطے میں کروڑوں کی تعداد میں ’’ٹڈی دَل‘‘ کی نئی جوان نسل کا انکشاف ہوا ہے، جو بہت جلد مصری اریٹیریائی، صومالی، بحیرہ احمر، اردنی، سعودی اور ملحق خطے میں کھڑی فصلوں اور نباتات کو چٹ کر جانے کیلئے تیار ہے۔ چینی نیوز ایجنسی ژن ہوا نے بتایا ہے کہ جنوبی سوڈان میں ٹڈیوں کے حملوں نے قحط کی کیفیت پیدا کردی ہے، جس سے نمٹنے کیلئے چینی حکومت نے 9,600 ٹن چاول اور اجناس بھیجا ہے۔ اپنے انتباہی پیغام میں عالمی ادارے نے مصری و سعودی حکومتوں کو خبر دار کیا ہے کہ ٹڈی دَل کے خاتمہ کیلئے جتنی جلد اور بھرپور کوششیں کی جائیں بہتر ہوگا کیونکہ ایک بار کسی جتھے کی شکل میں پرواز کر جانے والی ٹڈی دَل کی جوان نسل کسی علاقہ کا رُخ کرلیتی ہے تو علاقوں کو ویران کر دیتی ہے۔ مصری جریدے الیوم السابع نے ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارے فوڈ اینڈ ایگری کلچر نے مصری حکام سے اس سلسلہ میں گفتگو کی ہے اور وارننگ دی ہے کہ اس ماہ فروری کے آخری ہفتے میں بالغ ٹڈی دل لاکھوں کی تعداد میں مصری علاقوں پر حملہ آور ہونے کیلئے تیار ہیں، لیکن مصری وزیر برائے زراعت ڈاکٹر عز الدین ابو سطیط کا کہنا ہے کہ خطرے کی کوئی بات نہیں صورت حال کنٹرول میں ہے، لیکن اقوام متحدہ کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ خطرہ سنگین کیفیت اختیار کرسکتا ہے کیونکہ ٹڈی دَل ایرانی خطے سے متحدہ عرب امارات اور برصغیر تک پہنچ سکتے ہیں۔ ٹڈی دل کے بارے میں ایک سوڈانی ایکسپرٹ معید عبد الفتاح کا کہنا ہے کہ اُڑنے والے کیڑوں کی یہ نوع انتہائی خوفناک ہے اور اگرچہ یہ کئی خطوں میں بطور غذا استعمال کی جاتی ہیں۔ لیکن زہریلی نہ ہونے کے باوجود یہ انسانی زندگی اور معاشرے کیلئے مضر قرار پاتی ہے کیونکہ یہ سبز پودے، فصلیں اور درختوں کے پھول پتے سرعت کے ساتھ کھا جاتی ہیں۔ سوڈانی ٹڈی ایکسپرٹ معید عبد الفتاح کا کہنا ہے کہ ایک مربع کلومیٹر کی فضا میں پرواز کرنے والا کسی قسم کا بھی ٹڈیوں کا دَل ایک دن میں ایک لاکھ ٹن سبز پودے یا فصلیںچٹ کرسکتا ہے جو پانچ لاکھ انسانوں کی ایک سال کی خوراک کے برابر ہے۔ اپنی ایک رپورٹ میں سوڈانی میڈیا نے عالمی سائنسی محققین اور ماہرین کے حوالہ سے بتایا ہے کہ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ بحیرہ احمرکے اطراف کے علاقوں میں ٹڈی دَل کی انتہائی تیزی سے افزائش ہوئی ہے، جس کے نتیجہ میں ایک نئی نسل پیدا ہونے کے امکانات ہیں جو خوراک کی تلاش کریں گی اور اس کے بعد ان تمام ٹڈیوں کی جانب سے اطراف کے علاقوں میں حملوں کا خدشہ پیدا ہوچکا ہے۔ واضح کیا جاتا ہے کہ افریقی اور بحریہ احمر کے خطہ میں موجود یہ ٹڈیاں ایک دن میں ڈیڑھ سو کلومیٹر تک پرواز/ سفر کرسکتی ہیں۔ سوڈانی ذرائع ابلاغ نے بتایا ہے کہ بحیرہ احمر کے اطراف کے علاقوں میں موجود ٹڈی دَل کے حملوں کا ہدف بننے والے ممکنہ علاقوں میں اریٹیریا، صومالیہ، ایتھوپیا، سوڈان، مصر اور سعودی عرب شامل ہیں، جس سے ان علاقوں میں قحط کا خطرہ ہے۔ اس صورتحال کو مغربی اور اقوام متحدہ کے ماہرین ’’فوڈ سیکورٹی‘‘ سے تعبیر دے رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں برطانوی جریدے ڈیلی میل نے انکشاف کیا ہے کہ بحیرہ احمرکی یہ صحرائی ٹڈیاں ملحق خطوں اور علاقوں کیلئے سنگین خطرہ ہیں، جس سے اسرائیل میں بھی شدید خوف و ہراس پھیلا ہوا ہے۔ اسرائیلی جریدے حارث نے بتایا ہے کہ اسرائیلی محکمہ زراعت نے کسی بھی ممکنہ ٹڈی دَل حملوں سے بچائو کیلئے جدید الیکٹرونکس آلات اورکیمیائی اسپرے کا استعمال شروع کردیا ہے۔ اسرائیلی ماہرین زراعت نے تصدیق کی ہے کہ سیٹلائٹس کی مدد سے ملنے والی اطلاعات میں پتا چلا ہے کہ اریٹیریا، مشرقی یمن اور سوڈانی خطوں سمیت بحیرہ احمر کی وادیوں میں غیر معمولی بارشوں نے ٹڈی دَل کی نئی نسل کو جنم دیا ہے اور ان کی افزائش کیلئے موافق حالات پیدا کردیئے ہیں جس سے ان ٹڈیوں کے جتھوں کی اسرائیل اور سعودی عرب کی جانب زبردست یلغار ممکن ہے۔ اس سنگین خطرے کا ادراک کرتے ہوئے اسرائیلی وزارت زراعت نے اقوام متحدہ اور عالمی اداروں کی معاونت سے انسان اور ماحول دوست جراثیم کش ادویات کا تجربہ شروع کردیا ہے، جس کو ہوا میں پھیلانے کے بعد یہاں آنے والا ٹڈی دل ہلاک ہوجائے گا۔ اسرائیلی ماہر زراعت یوری شموعن نے بتایا ہے کہ 2013ء میں ایک ٹڈی دل حملے میں اسرائیل کی 10 فیصد فصلیں تباہ ہوگئی تھیں، یہی وجہ ہے کہ اس بار اسرائیلی حکام بے حد خوفزدہ بھی ہیں۔ ادھر سعودی میڈیا نے بتایا ہے کہ گزشتہ ماہ جنوری میں تعدد سعودی علاقوں اور بالخصوص حرم مکیہ میں بھی ٹڈی دَل کا ریلا حملہ آور ہوا تھا جس سے زائرین عمرہ و عبادت گزاروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ اگرچہ سعودی حکومت کی جانب سے کئے جانے والے فوری اقدامات کے تحت مکہ اور صحرائی علاقوں میں حملہ آور ٹڈی دَل کا خاتمہ کردیا گیا تھا۔ لیکن سعودی ماہرین کا کہنا ہے کہ ٹڈی دل جسے عربی زبان میں ’’جراد ال صحراوی‘‘ سے موسوم کیا جاتا ہے، مستقبل میں بھی مزید حملے کر سکتے ہیں۔ سعودی سرحدی ریاست جازان سے ملنے والی اطلاعات میں بھی بتایا گیا ہے کہ یہاں گزشتہ ماہ ٹڈی دَل کا حملہ ریکارڈ کیا گیا تھا، لیکن یہ ٹڈی دَل محدود تعداد میں تھیں، لیکن ایک بار زمین پرگر جانے کے بعد یہ اُٹھنے یا دوبارہ پرواز کرنے لائق نہیں رہیں۔
٭٭٭٭٭