جامع مسجد تلہ گنگ اورنگزیب عالمگیر کے دور میں تعمیر ہوئی

احمد خلیل جازم
چکوا ل کی تحصیل تلہ گنگ سے سرگودھا روڈ پر ایک تاریخی گائوں’’کھچی‘‘ واقع ہے ۔ یہاں پر ایک قدیم مسجد دیکھی جاسکتی ہے جس کے بارے کہا جاتا ہے کہ یہ شاہی جامع مسجد اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں تعمیر کی گئی۔ اسے تعمیر کرانے والا اورنگ عالمگیر کا مشیر خاص یا کمانڈر اور بعض لوگوں کے مطابق لاہور کا گورنر غازی اسد خان تھا۔ اس دور دراز علاقے میں اسد خان کیوں اور کیسے آیا، اور پھر یہاں ایک چھوٹی لیکن مضبوط ترین سادہ مسجد کی تعمیر کے پیچھے کیا محرکات تھے؟ ان تمام کا جائزہ لینے کے لیے امت ٹیم تلہ گنگ پہنچی اور وہاں سے ڈاکٹر عمر فاروق کی رہنمائی میں موضع کھچی شاہی جامع مسجد جا پہنچی۔ کھچی میں مسجد کے قائم مقام امام اور بارہویں پشت سے مسجد کی خدمت کرنے والے مولانا خالدمحمود نے ہمارا استقبال کیا اور مسجد کے بارے میں اہم ترین معلومات فراہم کیں۔ مولانا خالد کے والد مولانا حبیب بخش جو اس مسجد کے گیارہویں امام مسجد ہیں چالیس برس سے زائد عرصے سے امامت کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ پنجاب نے ثقافتی ورثے کے لیے جو نمبرنگ کی ہے اس میں اس مسجد کا 156 واں نمبر ہے۔ امام مسجد مولانا حبیب بخش کا کہنا تھا کہ ’’اس مسجد کی جو ساخت ہے وہ حضرت شاہ رکن عالم کے مزار سے مماثل ہے۔ کیونکہ اس کی چھت کے اندرونی سمت جو لکڑی لگی ہوئی ہے، ویسی ہی لکڑی حضرت شاہ رکن عالم کے مقبرے میں بھی لگائی گئی ہے۔‘‘
شاہی جامع مسجد دو حصوں میں تعمیر ہوئی، پہلا حصہ جو اندرونی حصہ یا ہال کہلاتا ہے، یہ حصہ 1141ھء بمطابق 1707ء میں اورنگ زیب عالمگیر کے دور میں بنوایا گیا تھا۔ بعد ازاں 1257ھ میں اس کی توسیع کی گئی اور بیرونی حصہ بنایا گیا۔ اس کے بعد مختلف اوقات میں بارہا مسجد کی توسیع اور مرمت ہوتی رہی جس کا آگے ذکر آئے گا۔ لیکن اہم ترین بات یہ ہے کہ اندرونی حصہ جو قدیم ہے اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے وہ آج بھی اصل حالت میں موجود ہے۔ اگرچہ یہ قدیم مسجد سادہ اور قدرے کم رقبے پر بنوائی گئی ہے لیکن بہرحال مضبوطی میں اپنی مثال آپ ہے۔ اس کے قدیم دروازے آج بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہیں حتی ٰ کہ چھت کی کڑیاں تک مضبوطی سے قائم ہیں۔ مولانا خالد نے مسجد کے حوالے سے بتایا کہ ’’اس قصبے کا قدیم نام حفظ پور خجی تھا، بعد میں صرف خجی رہ گیا جس کا تلفظ بگڑ کر کچھی کہلانے لگا۔ خجی ایک قوم تھی یہ لوگ مصری تھے جو مدینہ آکر آپؐ کے دست اقدس پر ایمان لائے۔ بعد ازاں ہجرت کرکے بلخ و بخارا سے ہوتے ہوئے پشاور کے قریب گدائی ڈھری کے قریب آباد ہوئے۔ وہاں سے اکوال قصبے میں آکر قیام پذیر ہوئے۔ وہاں سے پانی کی عدم موجودگی کی وجہ سے موجودہ علاقے میں آئے اور یہ انہی کی وجہ سے حفظ پور خجی کہلایا۔ خجی سے بعد ازاں مزید بگڑ کر کھچی ہوگیا ہے اب اسے کھچیاں بھی کہتے ہیں اور کھچی بھی کہا جاتا ہے۔ اسی خجی قوم کے مورث اعلیٰ حضرت محمود نے یہ علاقہ آباد کیا۔ بعد ازاں یہ گائوں دو بار ویران ہوا اور پھر اسے مخدوم حافظ نورالدین نے آباد کیا۔ لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ اس گائوں کو قاضی محمود نے ہی آباد کیا جو اعوان کچھی قبیلے کے مورث اعلیٰ تھے۔ بعد ازاں حافظ نور الدین نے یہاں قیام کیا اور درس و تدریس کا کام شروع کیا۔ اس گائوں کی اس روز سے آج تک یہ خوبی ہے یا ان اولیا اللہ کا فیضان ہے کہ کچھی کے ہر گھر میں عورتیں اور بچوں تک حافظ قرآن ہیں۔ آج بھی آپ گائوں کے کسی گھر میں چلے جائیں شاذ ہی آپ کو ایسا شخص یا عورت ملے گی جو حافظ نہیں ہوگی۔ چنانچہ حافظ نور الدین کے وقت بھی پورا گائوں نہ صرف حفاظ پر مشتمل تھا، بلکہ ہر چھوٹا بڑا قرآن کریم کی قرات میں بھی بے مثال تھا۔ اس گائوں کے ساتھ ایک باولی (سیڑھیوں والا کنواں) تھی، جس میں خواتیں سیڑھیاں اتر کر پانی بھرا کرتی تھی۔ اس کے آثار عہد موجود تک دیکھے جاتے رہے اب زمانے کی دست برد کے ہاتھوں ختم ہوگئے۔ اس کنوئیں کے ساتھ راستہ تھا جہاں سے قافلے گزرا کرتے تھے ، یہیں سے اورنگ زیب عالمگیر کے مشیر اسد خان کا قافلہ گزرا اور باولی کے قریب پانی کے لیے پڑائو ڈالا گیا۔‘‘
اورنگ زیب کا مشیر اسد خان اس علاقے میں کس غرض سے آیا تھا، اور کہاں جارہا تھا؟ اس حوالے سے مقامی صحافی اور شاہی مسجد کی تاریخ پر دسترس رکھنے والے محمد یعقوب کا کہنا تھا کہ ’’اسد خان غازی نامور مغل سپہ سالار تھا جو اورنگ زیب عالمگیر کے حکم پر اپنی فوج کے ہمراہ تحصیل تلہ گنگ کے ایک قصبے قلعہ کوٹ سارنگ کو فتح کرنے کی غرض سے جارہا تھا۔ دوران سفر جب کھچی گائوں کے قریب پہنچا تو جانب جنوب سمندری پر آکر پڑائو کیا‘‘ مولانا خالد کا کہنا تھا کہ ’’اسی پڑائو کے دوران وہ یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گیا کہ باولی پر آنے والی باحیا خواتین، جن میں بچیاں بھی شامل ہیں وہ سیڑھیاں اترتے چڑھتے وقت قرآن کریم کی تلاوت کررہی ہیں۔ اسی طرح اگلے روز اس نے یہ منظر بھی دیکھا کہ جو کاشت کار ہل چلا رہے تھے وہ بھی قرآن پاک کی قرات میں مشغول تھے، نہ صرف قرآن کریم کی تلاوت کرتے بلکہ ایسی خوبصورت قرات کررہے تھے کہ سننے والا ان کی مسحورکن آواز سن کر دم بخود رہ جاتا۔ چنانچہ اس نے تحقیق کی کہ کیا وجہ ہے یہاں سب مرد و زن قرآن پڑھ رہے تو اسے معلوم ہوا کہ یہاں تقریباً تمام مرد وزن حافظ قرآن ہیں۔ یہ سن کر وہ بہت متاثر ہوا۔‘‘ محمد یعقوب کا کہنا تھاکہ ’’دراصل کھچی کو اسی نسبت سے حفظ پور کچھی کہا جاتا ہے اور اس کی اردگرد کے علاقوں میں شہرت حفاظ کی وجہ سے ہی تھی۔‘‘ محمد یعقوب کا اس موقع پر بتانا تھا کہ ’’بعض محققین نے لکھا ہے کہ اورنگ زیب عالمگیر کے زمانے میں جو صاحب ماہ رمضان کی آخری تین راتوں میں بادشاہ کو تراویح میں پورا قرآن سناتے تھے، ان کا تعلق تلہ گنگ کے جنوب میں کچھی گائوں سے ہوتا تھا۔ یہ فیض دراصل حافظ نور الدین مخدوم کی بدولت تھا۔ چنانچہ اسد خان آپ کی زیارت اور ملاقات کا متمنی ہوا اور آپ سے مل کر میدان جنگ میں فتح و کامرانی کے لیے دعا کرائی۔ کچھ عرصہ بعد وہ قلعہ کوٹ سارنگ فتح کرکے دوبارہ اسی راستے سے واپس جاتے ہوئے حافظ صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ کچھ ہدیہ پیش کرنا چاہتا ہے۔ اس موقع پر مخدوم نور الدین نے فرمایا کہ درویش کو مال و دولت کی کیا ضرورت ہے اگر کچھ دینے کی تمنا ہے تو عوام کی دینی ضرورت کے پیش نظر ایک مسجد تعمیر کرا دی جائے۔‘‘
شاہی جامع مسجد کھچی کا اندرونی ہال اسی وقت اسد خان کے توسط سے اورنگ زیب کے دور میں تعمیر ہوا۔ اس کے محراب کے بائیں جانب ایک پتھر نصب ہے جس پر 1141ھ اس کی تعمیر کی تاریخ لکھی ہے۔ یہ تحریر بغور دیکھنے سے پڑھی جاتی ہے۔ اس کے نیچے اسد خان کا نام بھی لکھا دیکھا جاسکتا ہے۔ اندرونی ہال کی چھت انتہائی دیدہ زیب اور فن تعمیر کا شہکار ہے، اس میں نفاست ور سادگی کا امتزاج آنکھوں کو بہت بھلا معلوم ہوتا ہے۔ چھت کو دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ اسے بنانے والوں کی کاریگری اور مہارت کس اعلیٰ درجے پر فائز ہے۔ شیشم کی لکڑی کا استعمال بھی انتہائی نفاست اور قرینے سے کیا گیا ہے۔ دیواروںپر شہتیر، شہتیروں پر لکڑی کے بالے اور بالوںپر گولائی لیے ہوئی لکڑی کے ڈنڈے اس ترتیب سے رکھے ہوئے ہیں، جیسے مربع شکل میں جال بنا ہوا ہو۔ خالد کا کہنا تھا کہ ’’چھت کی تعمیر کا یہ انداز اور پوری چھت پر لکڑی کا استعمال ملتان میں پائی جانے والی مغلیہ دور حکومت میں تعمیر کردہ عمارات میںدیکھا جاسکتا ہے۔ خصوصاً عہد مغلیہ میں عام طور پر ڈیوڑھیوں اور استقبالی دروازوں کے اوپر ایسی ہی خوبصورت چھت کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ تاکہ آنے والوں پر مرکزی عمارت میں داخل ہونے سے پہلے استقبالی رہگزر کے حسن تعمیر سے پوری عمارت کی خوبصورتی کا تاثر قائم ہو۔ مغل تو ویسے بھی مذاق حسن کے دلدادہ تھے، ان کی تعمیر کردہ ہر عمارت میںان کے طبعی رجحان کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ وہی جھلک اس شاہی مسجد کی چھت سے دکھائی دیتی ہوئی آنکھوںکو طراوت بخشتی ہے۔ اتنا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اس لکڑی کی رنگت میں کوئی فرق آیا ہے اور نہ ہی اس کو دیمک یا کسی اور طرح کے کیڑے نے کوئی نقصان پہنچایا ہے۔ اس کی مضبوطی میںبھی کوئی فرق نہیںآیا۔‘‘ جب آپ سرگودھا روڈ سے کچھی گائوں کی جانب مڑتے ہیں تو سرگودھا روڈ سے ہی مسجد کے آثار دکھائی دے جاتے ہیں۔ مسجد کے سامنے پہنچ کر آپ کا واسطہ ایک قدیم طرز کے بارعب دروزاے سے پڑتاہے جو بند ہو تو معلوم ہوتا کہ جیسے اس کے کھلتے ہی کئی اسراروں سے پردہ اٹھ جائے گا اور یقین کیجیے جیسے ہی کھلتا ہے وہ اسراروں سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔ اس کے کھلتے ہی مسجد کی قدیم لیکن پرشکوہ اور خوبصورت عمارت مکمل دکھائی دینے لگتی ہے اور انسان دروازے کے باہر سے اندر کا منظر دیکھ کر ہی دنگ رہ جاتا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment