جب حضرت جنید بغدادیؒ کے وعظ کی شہرت عام ہوئی تو ایک دن ایک عیسائی نوجوان آپؒ کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگا: ’’لوگ آپ کو شیخ زمانہ کہتے ہیں؟‘‘
’’ یہ لوگوں کا حسن ظن ہے۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے عیسائی نوجوان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’اگر تم یہی بات کہنے کے لئے میرے پاس آئے ہو تو اپنا وقت برباد نہ کرو۔ میں خدا کا ایک کمزور بندہ ہوں۔ اس کے سوا کچھ نہیں۔ مقام شیخ بہت بلند ہے، جو میری دسترس سے باہر ہے۔‘‘
’’دراصل میں اس لئے حاضر ہوا ہوں کہ آپ کی زبان سے پیغمبر اسلامؐ کے اس قول کی تشریح سن سکوں۔‘‘ یہ کہہ کر عیسائی نوجوان نے سرور کونینؐ کی یہ حدیث پاک سنائی: ’’’مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘ پھر اس نے کہا کہ ’’اس کا کیا مطلب ہے؟‘‘
عیسائی نوجوان کا سوال سن کر حضرت جنید بغدادیؒ نے سر جھکا لیا۔ حاضرین مجلس نے محسوس کیا جیسے حضرت شیخؒ کسی خاص نکتے پر غور فرما رہے ہیں۔ چند لمحوں بعد حضرت جنید بغدادیؒ نے سر اٹھایا اور عیسائی نوجوان کو مخاطب کر کے فرمایا: ’’’اس کا مطلب صرف اتنا ہے کہ اب تم مسلمان ہو جاؤ۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ کا ارشاد گرامی سنتے ہی عیسائی نوجوان آپؒ کے دست حق پرست پر ایمان لے آیا اور اس نے برسر مجلس با آواز بلند خدا کی وحدانیت اور سرور کونینؐ کی رسالت پر گواہی دی۔
حضرت جنید بغدادیؒ کی مجلس میں اس وقت جو لوگ موجود تھے، ان میں سے بعض افراد نے عیسائی نوجوان سے پوچھا: ’’تمہارا سوال کچھ اور تھا اور حضرت شیخؒ نے جواب کچھ اور دیا؟‘‘
’’حضرت شیخؒ نے میرے سوال کا صحیح جواب دیا۔‘‘ عیسائی نوجوان کہنے لگا۔ ’’میں بہت دنوں سے ایک عجیب سی ذہنی کشمکش میں مبتلا تھا کہ مذہب اسلام اختیار کروں یا نہ کروں؟ میرا دل اسلام کی حقانیت کی طرف کھنچتا تھا، مگر میرے پیروں میں آبائو اجداد کے عقائد کی زنجیر تھی۔ اسی دوران میں نے حضور اکرمؐ کی حدیث مبارک سنی اور اس کی تشریح کے لئے حضرت شیخؒ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ حضرت شیخؒ کے کشف باطنہ کا یہ حال ہے کہ میری ذہنی کشمکش سے آگاہ ہوگئے۔ پھر مجھے یقین آگیا کہ واقعی مومن خدا کے نور سے دیکھتا ہے۔‘‘
ابھی حضرت جنید بغدادیؒ کا یہ روحانی سفر بلندیوں کی طرف جاری تھا کہ آپؒ کو اپنی زندگی کے دوسرے جانگداز صدمے سے دوچار ہونا پڑا۔ پہلا صدمہ آپؒ کے استاد گرامی حضرت شیخ حارث محاسبیؒ کی جدائی کا تھا۔ یہ الم ناک واقعہ 243ھ میں پیش آیا تھا۔ آٹھ سال بعد یعنی 251ھ میں حضرت شیخ سری سقطیؒ بھی دنیا سے رخصت ہوگئے۔ اگر چہ حضرت جنید بغدادیؒ کے والد محترم جناب محمدؒ بھی پہلے سال وفات پاچکے تھے، لیکن اس موقع پر آپؒ نے صبر و ضبط کا مظاہرہ کرتے ہوئے فرمایا تھا:
’’مجھے والد محترم کی جدائی کا صدمہ ہے، لیکن میں ابھی یتیم نہیں ہوا ہوں۔‘‘
لوگوں نے پوچھا: ’’شیخ! یہ بات آپ کس طرح کہہ رہے ہیں؟‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’ابھی میرے شیخ حضرت سری سقطیؒ حیات ہیں۔‘‘
اور یہ واقعہ بھی ہے کہ حضرت جنید بغدادیؒ سات سال کی عمر سے حضرت سری سقطیؒ کے ساتھ اس طرح وابستہ تھے کہ وہی آپؒ کے باپ تھے اور وہی ماں کا درجہ رکھتے تھے۔ حضرت سری سقطیؒ کو بغداد کے اس خطے میں دفن کیا گیا جسے ’’شونیزیہ‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اہل دل کی نظر میں اس خطہ اراضی کی بہت اہمیت ہے۔ یہی وہ مبارک مقام ہے جہاں بڑے بڑے مشائخ محو خواب ہیں۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭