سیدنا عمرو:راہ حق کا مسافر

حضرت عمرو بن عبسہؓ شام میں مقیم رہے۔ ابن حجرؒ کا خیال ہے کہ ان کا انتقال عہد عثمانی کے اواخر میں حمص میں ہوا۔ ایک روایت کے مطابق سیدنا عثمانؓ کی شہادت کے وقت حضرت عمرو بن عبسہؓ زندہ تھے اور انہوں نے حضرت معاویہؓ، حضرت عبادہ بن صامتؓ، حضرت ابوالدردائؓ اور حضرت ابوامامہؓ کے ساتھ مل کر قاتلین خوارج سے سیدنا عثمانؓ کا قصاص لینے کا مطالبہ کیا۔ ذہبی نے خیال ظاہر کیا ہے کہ حضرت عمرو بن عبسہؓ کی وفات 60ھ کے بعد ہوئی، البتہ انہیں خود بھی اس تاریخ پر پختہ یقین نہیں۔
اصحاب رجال حضرت عمرو بن عبسہؓ کو شامی صحابہؓ میں شمار کرتے ہیں۔ ان کی مرویات صحیح بخاری کے علاوہ ہر کتاب میں ہیں۔ حضرت عمروؓ نے نبی صلی اکرمؐ سے روایت کی، جبکہ ان سے حد یث روایت کرنے والوں میں شامل ہیں: حضرت ابن مسعودؓ، حضرت ابوامامہ باہلیؓ، حضرت سہل بن سعد ساعدیؓ، حضرت ابورزین لقیط بن صبرہؓ جیسے جلیل القدر اصحاب رسول اور حضرت ابو ادریس خولانیؒ، حضرت عبدالرحمن بن عسیلہ صنابحیؒ، حضرت کثیر بن مرہؒ، حضرت عدی بن ارطاۃؒ، حضرت شرحبیل بن سمطؒ، حضرت معدان بن ابو طلحہؒ، حضرت سلیم بن عامرؒ جیسے تابعین جن میں سے زیادہ تر شام میں مقیم تھے۔ حضرت عمرو بن عبسہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اقدسؐ نے ہمیں نماز پڑھائی۔ مال غنیمت کا ایک اونٹ (سترہ کے طور پر) سامنے تھا، سلام پھیرنے کے بعد آپؐ نے اونٹ کے پہلو سے ایک بال ہاتھ میں لیا اور فرمایا: تمہاری غنیمتوں میں سے میرے لیے اس بال کی مقدار کے برابر لینا بھی جائز نہیں۔ ہاں خمس لے سکتا ہوں اور وہ بھی تم لوگوں ہی میں پلٹ آتا ہے (یعنی مصالح عامہ میں استعمال ہوتا ہے۔) (ابوداؤد، مستدرک حاکم)
آں حضرتؐ خمس یتیموں اور مساکین میں تقسیم فرما دیتے یا اسلحہ اور فوج کے گھوڑوں کی خریداری میں صرف فرماتے۔
حضرت عمرو بن عبسہؓ کہتے ہیں: میں نبی اکرمؐ کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا: اسلام کیا ہے؟ فرمایا: اچھی گفتگو کرنا اور کھانا کھلانا۔ پوچھا: ایمان کیا ہے؟ جواب میں فرمایا: صبر کرنا اور فراخ دلی کا مظاہرہ کرنا۔ میں نے دریافت کیا: کون سا اسلام افضل ہے؟ تو ارشاد فرمایا: اس مسلمان کا اسلام جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔ سوال کیا: کون سا ایمان افضل ہے؟ جواب میں فرمایا: جو اچھا اخلاق جنم دے۔ پوچھا: کون سی نماز بہترین ہے؟ آپ نے فرمایا: جس میں دعا لمبی ہو۔ میرا اگلا سوال تھا: کون سی ہجرت بہترین ہے؟ جواب میں ارشاد ہوا: یہ کہ تو ان سب کاموں کو چھوڑ دے، جنہیں تمہارا رب پسند نہیں کرتا۔ میں نے استفسار کیا کہ کون سا جہاد سب سے زیادہ فضیلت رکھتا ہے؟ فرمایا: اس مجاہد کا جہاد جس کا خون بہے اور اس کا گھوڑا ہلاک ہو جائے۔ (ابن ماجہ، احمد)
سیدنا عمرو بن عبسہؓ کی قبر:
عرب مؤرخین و مترجمین برصغیر کو ہند، سندھ، بلاد سند و ہند اور ثغرہند کے نام سے یاد کرتے تھے جوکہ موجودہ پاکستان ہے۔ تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ (موجودہ پاکستان) مقدس قطعہ ارضی ہے جس پر رب نے خصوصی نظر ڈالی اور اسے اسلام کے ابتدائی ایام میں ہی احسان کرتے ہوئے اسلامی فتوحات سے سرفراز فرمایا۔ مولانا ابوالحسن علی ندویؒ فرماتے ہیں: ’’بے شک خدا تعالیٰ نے سرزمین سندھ (موجودہ پاکستان) پر خصوصی احسان فرمایا کہ اس خطہ عالم میں فتح اسلامی کے لئے اسے موطن اول ٹھہرایا۔‘‘
قاضی اطہر مبارک پوری (م1996) نے اپنی عربی کتاب العقد الثمین میں مجموعی الرسائل نامی کتاب کے حوالہ سے لکھا کہ رسول اکرمؐ کا اپنے پانچ نجم ہدایت صحابہ کرامؓ کو سندھ (موجودہ پاکستان) میں بھیجا جو قلعہ نیرن آئے تھے اور صحابہؓ کی وجہ سے یہاں چند لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ قاضی اطہرمبارک پوری نے اپنی کتاب ’’خلافت راشدہ اور ہندوستان‘‘ میں لکھا ہے کہ سترہ صحابہ کرامؓ اور نو تابعینؒ کے متعلق یقین کے ساتھ معلوم ہو سکا کہ ان کے مبارک قدم خلافت راشدہ میں موجودہ پاکستان آچکے تھے اور جن میں دو صحابہ ابتدائی اموی دور میں آئے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment