مرزا عبدالقدوس
چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر میں حکومت کی دلچسپی ختم ہو گئی ہے اور فنڈز کی آمد اور چیک وصولی کی تصاویر کا سلسلہ بھی بند ہو گیا ہے۔ البتہ بعض موبائل فون کمپنیاں فنڈریزنگ کا سلسلہ اب بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لئے قائم کئے گئے سپریم کورٹ آف پاکستان کے ڈیم فنڈ میں اب تک صرف نو ارب چھیاسی کروڑ بہتّر لاکھ سات ہزار دو سو اٹھاون روپے جمع ہوئے ہیں۔ وفاقی حکومت نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کی سروس کے آخری دنوں میں اس ڈیم کی افتتاحی تقریب کیلئے دو مرتبہ دن اور تاریخ کا تعین کیا، لیکن پھر مؤخر کر دیا گیا۔ یاد رہے کہ گزشتہ سال دسمبر میں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس ڈیم کا ٹھیکہ متنازع ہونے اور حزب اختلاف کی شدید تنقید کے بعد سے حکومت نے اس معاملے پر چپ سادھ رکھی ہے۔
واضح رہے کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار گزشتہ اور تقریباً دس ہفتے بعد منظر عام پر آئے اور لاہور میں آبی وسائل کے حوالے سے ایک پروگرام میں اس بارے میں اظہار خیال کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس فنڈ کے قیام کا مقصد پاکستان میں لوگوں کو پانی کی اہمیت کے بارے میں شعور اور آگاہی فراہم کرنا تھا۔ انہیں علم تھا کہ اس فنڈ پر ڈیم تعمیر نہیں ہو سکے گا۔ اپنے مقصد میں وہ کامیاب رہے ہیں اور اس حوالے سے اگر ان پر تنقید ہو رہی ہے تو اپنے ملک کے لئے وہ ہر تنقید برداشت کرنے کو تیار ہیں۔
سپریم کورٹ آف پاکستان کے گزشتہ روز کے اعداد و شمار کے مطابق ڈیم فنڈ میں اب تک 9 ارب 86 کروڑ 72 لاکھ 7 ہزار 258 روپے جمع ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ کے سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے دعویٰ کیا ہے کہ ثاقب نثار اور حکومت نے ڈیم فنڈ کی تشہیر پر 13 ارب روپے خرچ کئے ہیں۔ اس طرح خزانے کو تقریباً تین ارب روپے سے زائد کا جو نقصان ہوا ہے، وہ سابق چیف جسٹس سے وصول کیا جائے۔ احسن اقبال کے مطابق سابق چیف جسٹس نے دعویٰ کیا تھا کہ ڈیم فنڈ میں بیرون ملک سے دو سو ارب ڈالر آئیں گے۔ لیکن ان کے دوروں اور تشہیر کے نتیجے میں بیرون ملک سے صرف ایک ارب پچیس کروڑ روپے وصول ہوئے۔ ذرائع کے مطابق ڈیم فنڈ میں جو رقم جمع ہوئی ہے، اس میں سب سے بڑا حصہ پاک آرمی کا تھا۔ جس نے اپنی تنخواہ میں سے سب سے بڑا چیک اس فنڈ میں جمع کرایا ہے۔ کئی قومی اور سرکاری اداروں کے علاوہ کاروباری اداروں اور شخصیات نے بھی ڈیم فنڈ میں رقم جمع کرائی ہے۔ لیکن ذرائع کے مطابق ان عطیات سے ڈیم کی تعمیر ممکن نہیں ہے۔ ذرائع کے بقول انفرادی طور پر سب سے بڑی مالیت کا چیک پرویز بھٹی نامی شخص نے دیا۔ جو پانچ کروڑ روپے کا تھا۔
دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے 200 ارب روپے کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ تاہم تاخیر کی وجہ سے اس میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ جبکہ ڈیم فنڈ میں جو تقریباً پونے دس ارب روپے جمع ہوئے ہیں، وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مترادف ہیں۔ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے جب ڈیم فنڈ قائم کیا تھا تو اس وقت بھی اکثر حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ اتنا بڑا منصوبہ عطیات سے مکمل نہیں کیا جا سکتا۔ اب سابق چیف جسٹس نے اس خدشے کو درست تسلیم کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ان کا مقصد صرف عوامی شعور کو اجاگر کرنا تھا۔ بلاشبہ اپنے اس مقصد میں ثاقب نثار بڑی حد تک کامیاب رہے اور سابق چیئرمین واپڈا انجینئے شمس الملک نے نے بھی ان کی کاوش کو سراہا۔ لیکن ذرائع کے مطابق جنوری 2019ء میں ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیم فنڈ میں جمع ہونے والے عطیات میں بھی نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔
17 جنوری 2019ء کو ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیم فنڈ میں جمع ہونے والی رقم میں اضافہ نہیں ہوا، جو سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے جاری کئے گئے گراف سے بھی واضح ہے۔ موجودہ چیف جسٹس جو عدالتی امور میں انتہائی فعال ہیں اور ان کے مختصر دور میں اب تک مقدمات کے فیصلوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے، نے اس معاملے میں زیادہ دلچسپی نہیں لی۔ جبکہ وزیر اعظم عمران خان بھی ڈیم فنڈ کا نام لینا بھول گئے ہیں۔ ’’امت‘‘ گفتگو کرتے ہوئے صوبہ خیبر پختون کے سابق وزیر اعلیٰ انجینئر شمس الملک نے کہا کہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اور وزیر اعظم عمران خان نے ڈیم فنڈ قائم کر کے اور پوری قوم کی توجہ اس جانب دلا کر قوم کی بہت بڑی خدمت کی ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ ہم نے ڈیمز کی تعمیر پر توجہ نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کالاباغ ڈیم نہ بنانے کی ہر سال ایک سو چھیانوے ارب روپے قیمت ادا کر رہا ہے۔ ایک سوال پر انجینئر شمس الملک نے کہا کہ وہ اس ایشو پر کسی سے بھی، کسی بھی جگہ پر بات کرنے کو تیار ہیں۔ انہوں نے دیامر بھاشا ڈیم پر حکومت کی موجودہ سرد مہری کے رویے کی وجہ سے لا علمی کا اظہار کیا۔ لیکن حکومت سے یہ سوال پوچھا جانا چاہئے اور اسے جواب دینا چاہئے۔
٭٭٭٭٭