تثلیث سے توحید تک

میں اپنے والد چارلس ایڈورڈ اسٹیفوڈ اسٹیل کی ساتویں لڑکی ہوں۔میں1885ء میں حیدرآباد سندھ میں پیدا ہوئی۔میرے والد صاحب انصاف پسند اور بات کے پکے انسان تھے۔انہیں ہندوستان اور ہندوستانی لوگوں سے بڑا لگائو تھا۔کبھی کبھی تو وہ خود کو سندھی کہہ دیا کرتے تھے۔ہماری خاندانی نسبتیں بڑی عظیم تھیں۔مگر ہمارے والد کا کہنا تھا کہ شرافت کا معیار کردار ہے نہ کہ خون ، بہرحال میں چھ سال کی ہوں گی کہ مجھے تعلیم کیلئے انگلستان بھیج دیا۔مجھے سچی بات سے ہمیشہ سے پیار رہا۔ میں ہر بات کا سبب کھوجنے کی کوشش کیا کرتی تھی۔
میں ایک عیسائی کنبے میں پیدا ہوئی۔ مگر عیسائی کسی ایک عقیدے میں بھی متفق نہیں ہیں۔ عیسائیوں کے بہت سے فرقے ہیں، جو ایک دوسرے کو جہنمی کہتے ہیں۔ اس لئے عیسائی مذہب مجھے گورکھ دھندا سا لگا۔ مجھے سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ حضرت عیسیٰؑ خدا کے بیٹے کیسے ہو سکتے ہیں، مگر مجھے دعا سے بڑا شغف تھا اور میں اکثر ان دیکھے مالک سے لو لگا کر دعائیں کرتی رہتی تھی۔ جب میں جوان ہوگئی تو میں نے بائبل کو تنقیدی نظر سے پڑھنا شروع کیا۔ مجھے بائبل کے بہت سے بیانات ایک دوسرے سے متضاد محسوس ہوئے۔ مجھے بائبل کے کلام خدا ہونے میں شک ہونے لگا۔
کچھ عرصہ کے بعد میری شادی ہوگئی، مگر میرے شوہر ایک دینادار عیسائی تھے۔ وہ میرے فکرو خیال کے ساتھی نہ بن سکے، اس لئے میں نے فرصت کے وقت میں فلسفہ کا مطالبہ کرنا شروع کر دیا، مگر ان خیالی بھول بھلیوں سے مجھے کچھ نہ ملا۔
انہی دنوں میں اپنے والد کے پاس ہندوستان آئی۔ میری 12 سالہ لڑکی اور 10 سالہ لڑکا میرے ساتھ تھے۔ یہاں مجھے ویدانت پڑھنے کا موقع ملا۔ مجھے اس کے پڑھنے سے بڑی تسکین ملی۔ مجھے محسوس ہوا کہ مجھے وہ چیز مل گئی ہے، جس کی مجھے تلاش تھی۔ ویدانت کے مطالعے نے مجھے ہندو دھرم کے قریب کر دیا، میں کچھ عرصہ کے لئے ایک ہندو خانقاہ میں مہمان بن کر رہی اور بالآخر ہندو ہو گئی۔ مجھے راماکرشن کے ویدانتی سلسلے میں داخل کرلیا گیا، مگر مجھے یہ شرک سا محسوس ہوا، چنانچہ میرا یقین ہل گیا۔ مجھے محسوس ہوا کہ حقیقت ابھی اور آگے ہے۔
میں اس زمانے میں بیمار ہوگئی اور مجھے علاج کیلئے فرانس جانا پڑا۔ وہاں میرے سات آپریشن ہوئے، ہر آپریشن پر موت سامنے نظر آتی تھی۔ میں چاہتی تھی کہ میں موت کیلئے تیاری کر لوں۔ میں نے سوچا کہ دنیا ترک کر دوں اور آخرت کی تیاری میں لگ جائوں۔ لہٰذا میں واپس جب ہندوستان آئی تو میں نے سنیاس لے لیا۔ میں نے ایک سو آٹھ اپنشد پڑھے، لیکن یہ کیا… یہاں بھی بائبل کی طرح ان گنت تضاد تھے۔ ان میں کون سی بات حق ہے اور کون سی بات غلط ہے، یہ کیسے معلوم ہو، میں ایک بار پھر الجھ گئی۔ مجھے خوف ہوگیا کہ اس ذہنی الجھن میں کہیں پاگل نہ ہو جائوں۔ مجھے یہ بھی احساس ہوا کہ سنیاس سے میری روحانیت نہیں بڑھ رہی، بلکہ نفسیاتی کشمکش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسی زمانے میں ہندوستان میں عدم تعاون کی تحریک چل پڑی۔ ہندوستانی ہندوستانیوں سے لڑ پڑے۔ الموڑہ بھی فسادات سے بچا نہ رہا۔ اس وقت میرے دل نے کہا کہ یہ خانقاہ میں بیٹھ کر دھیان گیان کا وقت نہیں ہے، بلکہ باہر نکل کر زخمیوں اور دکھیوں کی مدد کرنے کا وقت ہے۔ میں نے اپنے گرو جی سے یہ بات کی، مگر انہوں نے کہا کہ ہم لوگ دنیا دار نہیں ہیں۔ تم جن باتوں کے کرنے کو کہہ رہی ہو، وہ سیاست کی باتیں ہیں۔ ہم ان باتوں میں نہیں پڑے۔
مجھے ان کے سوچنے کے اس انداز پر حیرت ہوئی۔ میں انہیں تو خانقاہ چھوڑ کر زخمیوں کی مدد کرنے پر آمادہ تو نہیں کر سکی، مگر خود خانقاہ سے نکل آئی۔ میں نے زخمیوں، دکھیوں اور مریضوں کی امداد کی۔ اس سے دل کو چین ملا اور میں نے طے کیا کہ روحانی ترقی انسانیت کی خدمت کے ذریعے حاصل ہوسکتی ہے، خانقاہوں سے نہیں۔ چنانچہ میں نے ایک آشرم کھولنے کا فیصلہ کیا، جس میں نوجوان لڑکوں کی اخلاقی تربیت دی جائے۔ اس آشرم میں، میں نے ہندو اور مسلمان کی قید نہیں رکھی۔ وہاں ایک مسلمان لڑکا داخلہ کیلئے لایا گیا۔ یہ لڑکا اپنے والدین کیلئے ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ میں نے سوچا کہ جب تک میں مسلمانوں کے نظام حیات کے بارے میں معلومات حاصل نہ کر لوں، میں اس لڑکے کی تربیت کا حق ادا نہ کر سکوں گی۔ اس نیت سے میں نے قرآن پڑھنا شروع کیا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment