امام غزالیؒ تحریر فرماتے ہیں:
تکبر یہی ہے کہ تم دوسروں کو کم تر اور حقیر جانو، ان کی تحقیر و تذلیل کرو، ان سے دور رہو، ان کے ساتھ ان کے برتنوں میں کھانا پینا برا سمجھو، بلکہ اپنے برتن انہیں استعمال نہیں کرنے دو۔ وہ راستوں میں برابر چلیں، مجلسوں میں اونچی جگہ بیٹھیں تو تمہیں سخت ناگوار ہو۔ تمہیں کوئی نصیحت کرے تو نفس پر سخت چھوٹ لگے، ناک بھوں چڑھاؤ، تلخ اور طعن آمیز جواب دو اور نصیحت کرنے والے کی تذلیل کرو۔ خود نصیحت کرنے لگو تو سخت مزاجی سے کرو، غلطی کرنے والے کو ٹوکنے لگو تو درشتی کے ساتھ ڈانٹ ڈپٹ کرو اور طالب علم پر نرمی نہ کرو۔ (احیاء العلوم)مولانا خلیل حسین میاںؒ نے تکبر کے درجات بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
۱… ایک تکبر تو یہ ہے کہ مال، اولاد، عقل، حسن وغیرہ میں خود کو اوروں سے بڑا اور دوسروں کو حقیر وذلیل سمجھے۔ ان چیزوں میں تکبر بڑی حماقت ہے۔ اس لیے کہ ان سب چیزوں کے حقیقی مالک تو حق تعالیٰ شانہ ہیں۔ بندے کو صرف عارضی طور پر امتحان کے لیے عطا ہوتی ہیں، جب وہ چاہیں گے، فوراً چھین لیں گے۔ ورنہ کچھ دنوں بعد تو موت یقیناً ان چیزوں کو چھڑا ہی دے گی۔
۲… دوسرا تکبر علم وعمل کا ہے۔ ان میں جو تکبر ہوگا وہ بھی سب سے برا ہوگا۔ اس میں حماقت کی انتہا ہو جاتی ہے۔ اس لیے کہ مال و اولاد وغیرہ جو دنیاداروں کی برائی کے اسباب ہیں، وہ فی الجملہ نظر تو آتے ہیں اور علم وعمل کی بزرگی اور بڑائی کے اسباب تو نظر بھی نہیں آتے، محض رب تعالیٰ کی مرضی اور فضل پر ہے۔ کوئی بڑے سے برا بزرگ بھی اپنے عمل کو خدا جل شانہ کی شان کے مطابق قابل قبول نہیں کہہ سکتا۔ نیز قبولیت کی کسی کے پاس اطلاع بھی نہیں، بلکہ جتنی کسی کو معرفت ہوگی، وہ اتنا اپنے عمل کو حقیر سمجھے گا اور ڈرے گا۔ اگر کبھی بہ طور شکریہ کسی کے دینی نفع کے لیے اپنے کسی عمل یا حالت کو ظاہر کرے گا تو اس کے ساتھ عجرو تواضع ہی کا اظہار ہوگا، تکبر نہ ہوگا۔
۳… اور ایک تکبر اس سے بڑھ کر ہے، وہ تواضع کی شکل میں ہے، یعنی انسان خود کو تواضع کی صفت سے موصوف اور اس میں اوروں سے بڑھا ہوا سمجھے۔ ا س کو اپنے متکبر ہونے کا وہم تک نہیں ہوتا، اس لیے یہ عام تکبر سے شدید تر ہے۔ (انصاف فی حدود الاختلاف صفحہ۷۸)جنت چار افراد کی مشتاق ہے:
ایک حدیث میں ہے کہ ہر شخص جنت کا مشتاق ہے، لیکن جنت چار قسم کے لوگوں کی مشتاق ہے:
٭… رمضان المبارک کے روزے رکھنے والے۔
٭…قرآن مجید کی تلاوت کرنے والے۔
٭… بھوکوں کو کھانا کھلانے والے۔
٭… ننگوں کو لباس پہنانے والے۔
(تذکرۃ الواعظین صفحہ۳۴۲)
باوضو رہنے کے فوائد
۱… باوضو رہنے والا شخص مستجاب الدعوات ہوجاتا ہے، یعنی اس کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔
۲… اس کی موت آگئی تو شہدا کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
۳… شیاطین اس پر مسلط نہیں ہوسکیں گے۔
۴… (باوضو ہونے کی برکت سے) نماز میں تکبیر اولیٰ کی سعادت حاصل کرسکے گا۔
۵… حکام مسخر ہوجائیں گے۔
۶… بات میں اثر پیدا ہوگا اور چہرے کا حسن دوبالا ہو جاتا ہے۔
(مومن کے لیل ونہار صفحہ۲۱۳)
٭٭٭٭٭