وہ قونیہ کا نامور عالم دین تھا، جب وہ تقریر کا آغاز کرتے تو ہزاروں کا مجمع پتھر کے بتوں کی طرح ساکت ہو جاتا، درو دیوار اُس عالم دین کے جوشِ خطابت سے لرزتے، لوگوں کی سانسیں رک جاتیں، لوگ سینکڑوں میل کا سفر کر کے اُس کے وعظ سے لطف اندوز ہونے آتے۔ یہ عالم دین شہرت کے آسمان پر ستارہ بن کر چمک رہا تھا۔ آپ کی خطابت کے سامنے چراغ دھندلے ہوتے چلے گئے۔
کسی بھی انسان کو جب لازوال شہرت ملتی ہے تو حاسدین کا گروپ بھی پیدا ہو جاتا ہے۔ عالم دین کی شہرت کو داغدار کرنے کے لیے سازش تیار کی گئی۔ جب عالم دین عظیم الشان مجمع کے سامنے تقریر کے لیے کھڑا ہوا تو اچانک ایک شخص اٹھا اور بولا محترم آپ اپنے پسندیدہ موضوع پر تو خوب بولتے ہیں، مزا تو تب ہے جب آپ ہمارے بتائے ہوئے موضوع پر اظہار خیال کریں۔ عالم دین دلنواز تبسم سے بولے: جناب آپ آج جس موضو ع پر کہیں گے، میں اُس پر تقریر کروں گا۔ تو وہ شخص بولا جناب آج آپ سورۃ والضحیٰ کی تفسیر بیان کریں۔ مخالفین اپنا تیر چھوڑ چلے تھے کہ آج ہم نے مشکل ترین موضوع چنا ہے۔ جس پر مولانا صاحب تقریر نہیں کر پائیں گے۔ اِس طرح مولانا صاحب لوگوں میں تماشا بن کر رہ جائیں گے، لیکن مولانا صاحب نے آسمان کی طرف دیکھا۔ محبوب خداؐ پر درود شریف بھیجا اور بولے: جناب آج ہم قرآن مجید کی اِس سورۃ کے پہلے لفظ ’’وائو‘‘ پر بات کر تے ہیں، آج اِسی لفظ کی تشریح ہو گی کہ خدا تعالیٰ نے اِس سورۃ میں لفظ وائو کو کیوں استعمال کیا ہے، پھر اپنے وقت کے ذہین ترین عالم دین کے منہ سے علم کا آبشار ابل پڑا۔ جوش خطابت، علم و عرفان، فہم وآگہی اور بصیرت کے دریا بہہ رہے تھے۔ متلاشیان علم اپنے خالی دامن بھر رہے تھے، ہجوم پر سناٹا طار ی تھا۔
عالم دین کا پر مغز خطاب جاری تھا، مسلسل چھ گھنٹے لفظ ’’واو‘‘ پر واعظ جاری تھا تو وہی شخص اٹھا، جس نے اعتراض کیا تھا، آگے بڑھ کر مولانا کے قدموں پر اپنا سر رکھ دیا اور معافی مانگی۔ وہ بار بار ایک ہی لفظ بول رہا تھا ’’بے شک آج پو رے روم میں آپؒ کا ثانی کوئی نہیں ہے، میں حسد کا شکار ہو گیا تھا، اے نیک دل عالم دین، مجھے معاف کر دے۔‘‘
مولانا نے اُس شخص کو اٹھا کر گلے سے لگایا اور مجمع کی طرف اشارہ کیا کہ میں نے تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو معاف کیا، پھر مولانا کے مقابلے پر کوئی نہ تھا۔ پو رے ملک میں آپؒ کے علم و فہم کے چرچے تھے۔ آپؒ کے وعظ میں ہزاروں لوگ شامل ہو کر اپنی علمی پیاس بجھاتے۔ آپ ؒ چلتے تو سینکڑوں لوگ آپؒ کے ہمراہ چلتے۔ وعظ اور علم کے سمندر پینے کے بعد بھی مولانا اکثر کہا کر تے: دنیا جہاں کی کتابیں اور علم سمیٹنے کے باوجود میری باطنی پیاس آج بھی بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ میری بے قراری کو قرار کب آئے گا۔ میری پیاس کون بجھائے گا، پھر حق تعالیٰ نے عالم دین کی زندگی میں وہ واقعہ وارد کیا جس نے عالم دین کی زندگی بدل دی اور اُسے قیامت تک کے لیے شہرت کے آسمان پر امر کر دیا۔
مولانا کے پاس دنیا جہاں کی نادر نایاب کتب کا ذخیرہ تھا۔ ایک دن اپنے کتب خانے میں شاگردوں کو وعظ دے رہے تھے کہ اچانک ایک اجنبی شخص پھٹے پرانے کپڑوں چہرے بالوں میں مٹی پڑی ہوئی آیا اور آکر شاگردوں کے درمیان سے گزرتا ہوا مولانا کے پاس جا کر بیٹھ گیا۔ مولانا کا وعظ جاری تھا، اجنبی کو مولانا کے وعظ سے بالکل بھی دلچسپی نہ تھی، وہ بار بار قیمتی کتابوں کو دیکھ رہا تھا، آخر اجنبی بولا مولانا یہ کیا ہے؟ اُس کا اشارہ کتابوں کی طرف تھا۔ مولانا کو اجنبی کا سوال برا لگا، اُسے کہا بھی میں وعظ میں مصروف ہوں، فارغ ہو کر تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں، پھر اجنبی خاموشی سے مولانا کو دیکھتا رہا، جب درس ختم ہوا تو مولانا بولے: اے اجنبی آپ کون ہیں؟ یہاں کیا کرنے آئے ہیں؟ تو اجنبی پھر کتابوں کی طرف اشارہ کر کے بولا یہ کیا ہے؟ تو مولانا بولے: تمہاری نظر شاید کمزور ہے، یہ قیمتی نایاب کتب ہیں، لیکن تم اِن کے بارے میں کیا جان سکتے ہو؟ اجنبی مولانا کی بات سن کر اٹھا اور بولا اچھا یہ وہ ہیں، جن کے بارے میں، میں کچھ نہیں جانتا، ابھی الفاظ ختم ہوئے تھے کہ کتب خانے میں آگ بھڑک اٹھی اور قیمتی کتابیں دھڑا دھڑ جلنے لگیں۔ مولانا دم بخود یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ اجنبی کی طرف دیکھا اور بولے: یہ کیا ہے؟ تو اجنبی بولا یہ وہ ہے، جو تم نہیں جانتے۔ مولانا کے منہ سے آہ نکلی، ہائے میری نادر نایاب کتابیں تمہاری وجہ سے جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئیں تو اجنبی اٹھا، جاتے جاتے بولا اگر میری وجہ سے تمہاری کتابیں جل گئی ہیں تو میں تمہاری کتابیں واپس کرتا ہوں، پھر لوگوں نے عجیب منظر دیکھا، آگ بجھ گئی، مولانا نے بڑھ کر دیکھا، ساری کتابیں اصلی حالت میں تھیں۔ ایک ورق بھی نہیں جلا تھا۔ مولانا پکار اُٹھے یہ کیا ہے؟ تو اجنبی بولا: یہ وہ ہے جو تم نہیں جانتے۔
بعض تذکرہ نگاروں کے یہ واقعہ اِس طرح بیان کیا ہے کہ مولانا ایک دن حوض کنارے درس دے رہے تھے۔ ایک اجنبی آیا اور کتابوں کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یہ کیا ہیں؟ تو مولانا بولے تم نہیں جانتے یہ کیا ہیں تم تو جاہل ہو۔ اجنبی نے بڑھ کر ساری کتابیں حوض میں پھینک دیں۔ مولانا بھڑک اٹھے۔ اے جاہل شخص تم نے میری نایاب کتابیں تباہ کر ڈالیں۔ یہ قیمتی نسخے دنیا میں صرف میرے پاس تھے تو اجنبی نے حوض میں ہاتھ ڈال کر ساری کتابیں نکال کر رکھ دیں، جو ساری خشک تھیں۔ ایک ورق بھی گیلا نہ ہوا تھا۔ مولانا حیرت میں گم بولے یہ کیا کتابیں گیلی کیوں نہیں ہوئیں؟ یہ کونسا علم ہے تو اجنبی بولا یہ وہ ہے جسے تم نہیں جانتے۔ اتنا کہہ کر اجنبی وہاں سے چل دیا۔ مولانا اُس اجنبی کے پیچھے دوڑے کہ جو علم تم جانتے ہو، میں اُس کی تلاش میں تھا۔ مجھے غلامی میں قبول کر لو۔ اجنبی کا نام حضرت شمس تبریزؒ تھا اور مولانا تاریخ انسانی کے عظیم اہل معرفت حضرت جلال الدین رومیؒ تھے۔
٭٭٭٭٭