سکھر میں سیدنا عمروؓ کی قبر مبارک:
قاضی اطہر مبارک پوری (م1996) نے اپنی عربی کتاب العقد الثمین میں مجموعی الرسائل نامی کتاب کے حوالہ سے لکھا ہے کہ رسول اکرمؐ کا اپنے پانچ نجم ہدایت صحابہ کرامؓ کو سندھ (موجودہ پاکستان) میں بھیجا جو قلعہ نیرن آئے تھے اور صحابہؓ کی وجہ سے یہاں چند لوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ قاضی اطہرمبارک پوری نے اپنی کتاب ’’خلافت راشدہ اور ہندوستان‘‘ میں لکھا ہے کہ سترہ صحابہ کرامؓ اور نو تابعینؒ کے متعلق یقین کے ساتھ معلوم ہو سکا کہ ان کے مبارک قدم خلافت راشدہ میں موجودہ پاکستان آچکے تھے اور جن میں دو صحابہ ابتدائی اموی دور میں آئے ہیں۔
12 ربیع الاول 11 ہجری کو رسول اکرمؐ نے دنیا سے پردہ فرمایا۔ حضرت ابوبکر صدیقؓ مسلمانوں کے خلیفہ اول بنے۔ دو سال بعد انتقال ہوا۔ 13 ہجری کو حضرت عمر فاروقؓ خلیفہ دوم بنے اور اسلام کے سنہری باب دور میں مختلف خطوں تک اسلام پہنچا اور اسلامی جھنڈا 22 لاکھ مربع میل پر بلند ہوا اسی دوران حضرت عثمان بن ابی العاصؓ کی پاکستان کی طرف توجہ مبذول فرمائی۔ چونکہ آپ خلیج عمان کے ساحل سے سندھ و ہند میں برابر تجارت کے آتے جاتے۔ آپ کا شمار خیار صحابہ میں ہوتا ہے، جنہوں نے سندھ موجودہ پاکستان میں پہلا قدم رکھا۔ 23 ہجری کے آخری دنوں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو ابولولوفیزور نے نماز فجر میں چھرا گھونپا اور 1 محرم 24 ہجری کو رب تعالیٰ کو پیارے ہوئے تو حضرت عثمان غنیؓ مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ منتخب ہوئے۔
حضرت مغیرہ بن ابی العاصؓ نے سندھ کی اہم بندرگاہ دیبل پر حملہ کیا۔ حضرت ابن عامر بن کریزؓ نے کرمان پر حملہ کیا اور کرمانیوں نے اپنی بہادر کوہستانی قوموں کوج اور بلوچ کو مدد کے لئے بلایا۔ حضرت مجاشع بن مسعودؓ نے کرمان پر حملہ کیا اور فتح یابی کے بعد عالی شان قصر بنوایا جو مدتوں تک قصر مجاشع کے نام سے مشہور رہا ہے۔
حضرت ربیع بن زیاد حرثیؓ نے زرنج، راشت اور سنار وغیرہ کے اہم مقام فتح کیے اور حضرت عبدالرحمن بن سمرہؓ صحابی رسول اور پرانے تجربہ کار فوجی آفیسر اور مسلم جنرل کی تقرری یہاں ہوئی۔
حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت 35 ہجری کو ہوئی تو اسی ہجری کے اواخر میں حضرت علیؓ مسند خلافت پر رونق افروز ہوئے اور اس عرصہ کو خلافت علوی بھی کہتے ہیں۔
حضرت ابن عباسؓ کو والی بصرہ بنایا گیا تو انہوں نے حضرت ربعی بن کاس عنبریؒ کو چار ہزار فوجیوں کا دستہ دے کر زرنج بھیجا۔ انہوں نے حسکہ کے سپاہیوں کی اچھی درگت بنائی اور وہ تہ تیغ ہوئے۔ حضرت حارث بن مرہ عبدیؓ نے سندھ پر حملہ کیا اور خلافت علوی میں صرف یہ ایک حملہ ہے جوکہ غیر ملک پر جہاد کی غرض سے ہوا۔ اس کی بنیادی وجہ شاید حضرت علیؓ اپنے زمانہ خلافت میں اندرونی حالات سنوارنے سے کبھی فارغ نہیں ہوئے۔
حضرت علیؓ 40 ہجری میں جام شہادت نوش فرما گئے تو آپ کے لخت جگر حضرت حسنؓ نے چندہ ماہ خلیفہ بنے اور حضرت امیر معاویہؓ کے ہاتھوں بیعت کرکے خود گوشہ عزلت میں جا بیٹھے کہ امت مسلمہ کسی اور جانی نقصان سے دوچار نہ ہو۔
حضرت ابن قیس بن مخلدؓ نے صیقلہ (سندھ) کو ان دنوں فتح کیا جب حضرت علیؓ کی شہادت ہوئی۔ ان کے والد حضرت قیسؓ بدری صحابی ہیں اور غزوہ احد میں شہید ہو گئے تھے۔
حضرت معاویہ نے مسند خلافت کو سنبھالتے ہی حضرت عمر بن عبید اللہ کو لسبیلہ پر حملہ کے لئے بھیجا اور یہاں پر دھاوا بول کی فتح حاصل کی۔ 41 ہجری میں حضرت راشد بن عمرو جدیدیؓ نے سندھ پر فاتحانہ حملہ کیا۔
ضلع سکھر کے ایک مضافاتی علاقے کے ایک چھوٹے سے قدیم گاؤں محبوب گوٹھ میں تین صحابہ کرامؓ کی قبور واقع ہیں۔ یہ وہ صحابہ کرام ہیں جو تبلیغ اسلام کی خاطر مکہ اور مدینہ منورہ چھوڑ کر اک لمبے سفر کو نکل پڑے۔ جن صحابہ کرامؓ کے مزارات یہاں موجود ہیں، ان کے نام یہ ہیں: حضرت عمرو بن عبسہؓ، حضرت معاذ جہنیؓ، حضرت عمرو بن اخطبؓ۔ ان تینوں صحابہ کرامؓ میں سے صرف حضرت عمرو بن عبسہؓ کی قبر تصدیق شدہ بتائی جاتی ہے۔ باقی دو صحابہ کرامؓ کی قبور میں اختلاف ہے۔
٭٭٭٭٭