عباس ثاقب
سکھبیر نے میری بات سن کر اثبات میں سر ہلایا اور کہا۔ ’’ آپ کا مشورہ بالکل ٹھیک ہے۔ مگر میرا خیال ہے کہ مٹھو سنگھ کا قتل تو سیدھا سیدھا تم کشمیریوں کے سر پر ڈالیں گے دلّی والے۔ اس کے منیجر اور گارڈ کے قتل میں تم لوگوں کے ہاتھ کا تو ان کے پاس ثبوت موجود ہے ہی!‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’تم بالکل ٹھیک کہہ رہے ہو بھائی۔ لیکن اصل نکتہ یہ ہے کہ اس وقت پورے پنجاب میں پولیس پاگل کتے کی طرح بولائے پھر رہی ہے‘‘۔
سکھبیر نے میرے موقف کی تائید کی۔ لیکن ساتھ ہی میرے حوالے سے اپنے خدشے کا اظہار کیا۔ ’’بھائی، پھر تو تمہارا سفر کرنا بھی خطرناک ہے۔ وہ پورے پنجاب میں موجود تمام کشمیریوں کی ناک میں دم کر دیں گے۔ اس لیے تم بھی فی الحال امر دیپ بھائیا کے پاس جانے کا ارادہ چھوڑ دو‘‘۔
میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’تمہاری تشویش سر آنکھوں پر بھائی۔ لیکن میں نے شاید بتایا تھا ناں کہ میں نے کئی سال دلّی میں گزارے ہیں اور میں ان ہی کے لہجے میں خالص اردو بول سکتا ہوں۔ اس لیے مجھے وہ لوگ کشمیری کی حیثیت سے نہیں پہچان سکتے۔ ویسے بھی میں سینکڑوں کے درمیان پبلک ٹرانسپورٹ سے سفر کروں گا‘‘۔
سکھبیر نے کہا۔ ’’اگر تم یہی مناسب سمجھتے ہو تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ لیکن بہتر ہوگا کہ تم ریل کے ذریعے وہاں جاؤ۔ جس پر پولیس کی نگرانی زیادہ سخت نہیں ہوتی‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’نہیں۔ میرا تجربہ ہے کہ لوکل بسوں پر پولیس کی سب سے کم توجہ ہوتی ہے۔ سونام اترکر تانگے سے چھاجلی چلا جاؤں گا‘‘۔
سکھبیر نے کہا۔ ’’ٹھیک ہے۔ جیسے آپ کو ٹھیک لگے ویسا کرلیں‘‘۔
کھانے کے بعد سکھبیر مجھ سے اجازت لے کر اپنے کچھ سینیئر ساتھیوں سے ملاقات کرنے چند گھنٹوں کے لیے اکال تخت چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد میں اپنے آئندہ کے لائحہ عمل پر سنجیدگی سے غور کرتا رہا۔ کافی سوچ کر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے اب امر دیپ کی طرف جاکر وقت ضائع کرنے کے بجائے منڈی گوبند گڑھ جا کر وہاں کی صورتِ حال کا جائزہ لینا چاہیے۔ میرے اندازے کے مطابق ظہیر ابھی تک کشتواڑ سے واپس نہیں لوٹا ہوگا۔ لیکن میری وہاں موجودگی سے جمیلہ اور رخسانہ کا حوصلہ بڑھے گا اور ناصر اور یاسر کے حوالے سے ان کے خیالات جاننے کا بھی موقع ملے گا۔
ویسے بھی سکھبیر نے خفیہ پولیس والوں کے حوالے سے جو کچھ بتایا تھا۔ اس کی روشنی میں مجھے ہرمندر صاحب میں بلاوجہ ٹھہرنا خطرناک محسوس ہو رہا تھا۔ کہیں ان کے ساتھ ساتھ پولیس مجھے بھی مشکوک جان کر پیچھے نہ لگ جائے۔ ان ہی خیالات میں جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔
صبح قدرے دیر سے جاگا تو سکھبیر کو بدستور بستر سے غائب پایا۔ البتہ آثار بتا رہے تھے کہ اس نے اسی کمرے میں شب بسری کی تھی۔ میرے بیدار ہونے کے کچھ ہی دیر بعد شیر دل میرے لیے ناشتہ لے آیا۔ میں نے سکھبیر کا پوچھا تو اس نے بتایا کہ وہ علی الصباح کہیں چلا گیا ہے اور اس نے اپنی منزل یا واپس آنے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔ مجھے یہ سن کر کچھ حیرت ہوئی۔ کیونکہ میں نے اسے اپنی روانگی کے پروگرام کے بارے میں بتا دیا تھا۔ تاہم میں نے اس کی واپسی کا انتظار مناسب سمجھا۔ دراصل میں اسے آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اب میرے بجائے ظہیر اس سے ملاقات کے لیے آئے گا اور اسے آگے کے معاملات غالباً اسی کے ساتھ بڑھانے ہوں گے۔
دوپہر کے قریب جب میں اپنے طور پر روانگی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہا تھا۔ سکھبیر ساٹھ باسٹھ سال کے ایک دبلے پتلے قامت سردار جی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا۔ میں نے اٹھ کر ان کا استقبال کیا۔ سردار جی نے گرم جوشی سے مجھے سینے سے لگایا اور پنجابی لہجے والی اردو میںکہا۔ ’’تم نے دل خوش کر دیا جوان۔ مجھے تو اندازہ ہی نہیں تھا کہ تم کشمیریوں نے اپنی کارکردگی اتنی بڑھالی ہے‘‘۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ تب سکھبیر نے تعارف کرایا۔ ’’یہ ہمارے سینیئر لیڈر منندرککڑ جی ہیں۔ یہ انگریزوں کی فوج میں افغانیوں سے لڑ چکے ہیں اور پاکستان کے سارے پٹھان علاقے کھنگال چکے ہیں۔ دو سال تو خیبر کے کیمپ میں رہے ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی منندر ککڑ جی۔ آپ جیسے منجھے ہوئے جنگی ماہرین یقیناً خالصتان تحریک کے لیے بہت بڑا سرمایہ ہیں‘‘۔
بزرگ سردارنے کہا۔ ’’کیا نام ہے تمہارا… ذاکر کاکا۔ ہمیں بہت دیر سے عقل آئی۔ ورنہ ہماری آزادی کی جنگ تو بہت پہلے شروع ہو چکی ہوتی۔ ابھی بھی ہمیں بہت تیاری کرنی ہے۔ فوجی طاقت کے لحاظ سے تو ہم ہندوستانی فوج کا پاسنگ بھی نہیں ہیں‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’منندر جی۔ میرا عقیدہ ہے کہ اگر ارادہ پکا ہو اور آپ حق کی راہ پر ہوں تو اوپر والا غیب سے مدد کرتا ہے۔ ویسے بھی یہ خدا کا انتظام ہے کہ ہاتھی جیسے دیو قامت جانور کو ایک معمولی چیونٹی مار گراتی ہے۔ ہم کشمیری تو تعداد اور طاقت میں آپ کی قوم سے بہت کم ہیں۔ اس کے باوجود ہم نے اپنے علاقے میں ہندوستانی فوج کو تگنی کا ناچ نچا رکھا ہے۔ اگرہمارے پاس بھاری ہتھیار ہوں تو ہم انہیں کچھ ہی عرصے میں وہاں سے مار بھگائیں‘‘۔
منندر ککڑ نے ستائش کے اظہار کے لیے گردن ہلائی۔ ’’ہاں۔ پچھلے چھ سات مہینے میں کشمیر سے کامیاب کارروائیوں کی کافی خبریں ملی ہیں۔ ہم مل کر قابض فوج کے خلاف کارروائیاں کریں گے تو اور زیادہ کامیابی ملے گی۔ باقی جہاں تک بھاری ہتھیاروں کا تعلق ہے۔ اگر تم لوگ رقم کا بندوبست کرلو تو میں پاکستان کے آزاد قبائلی علاقوں اور افغانستان میں اسلحہ بنانے اور بیچنے کا کاروبار کرنے والوں سے تمہارا رابطہ کروا سکتا ہوں۔ میرا خیال ہے پچاس کیلیبر کی ایک دو مشین گنیں تم لوگوں کے پاس آجائیں تو پہاڑوں میں بنیا فوج کی سینکڑوں لاشیں بچھا سکتے ہو‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭