زہریلی ادویات عام اسٹوروں پر بھی فروخت کی جارہی ہیں

عظمت علی رحمانی
کراچی میں پانچ بچوں اور خاتون کی موت کھٹمل مار دوا سے ہوئی۔ جامعہ کراچی کے بین الاقوامی تحقیقی مرکز کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق سرکاری گیسٹ ہائوس ’قصر ناز‘ کی انتظامیہ نے کمرے میں کھٹمل مار دوا رکھی تھی۔ جس کے بعد کمرے کو دھونے اور مقررہ معیاد سے قبل کمرے میں مہمان ٹھہرا دیئے گئے تھے۔ دوا سے خارج ہونے والی فاسفین گیس پھیلنے سے کوئٹہ سے آنے والی فیملی کے پانچ بچوں اور خاتون کی موت واقع ہوگئی۔ ایگری کلچر کیلئے استعمال کی جانے والی کئی قسم کی زہریلی اور ممنوعہ ادویات شہر کے جنرل اسٹوروں پر بھی سر عام فروخت کی جارہی ہیں۔ بلوچستان کے ضلع پشین اور چمن کے درمیان واقع گاؤں خانوزئی سے تعلق رکھنے والے ایک ہی خاندان کے پانچ بچوں اور ایک خاتون کی موت کا سبب بننے والے کھانے سمیت دیگر اشیا کے نمونے جامعہ کراچی میں واقع اعلیٰ میعار کے بین الاقوامی تحقیقی مرکز بھیجے گئے تھے۔ جس نے اپنی ابتدائی رپورٹ کمشنر کراچی افتخار شلوانی اور پولیس کو فراہم کر دی ہے۔ اس رپورٹ میں 5 بچوں اور ان کی پھوپھی کی ہلاکت کی وجہ کھٹمل مار دوا کو قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق سرکاری گیسٹ ہاؤس ’قصر ناز‘ میں 5 بچوں اور خاتون کی موت کھٹمل مار دوا سے خارج ہونے والی جان لیوا فاسفین گیس کے سبب ہوئی۔ تاہم پولیس کی جانب سے پنجاب سائنس فارنسک لیبارٹری کو بھیجی جانے والے نمونے کی ابتدائی رپورٹ ابھی آنا باقی ہے، جس میں ایک ہفتہ لگ سکتا ہے۔ علاوہ ازیں اس کے علاوہ محکمہ فوڈ نے بھی سیملپز حاصل کئے، جس کی رپورٹ بھی اب تک سامنے نہیں آئی ہے۔ جامعہ کراچی کے تحقیقی مرکز کے سربراہ ڈاکٹر اقبال چوہدری کا کہنا ہے کہ کمرے میں کھٹمل مار دوا ’ایلمونیم فاسفائیڈ‘ ڈالی گئی تھی، جس سے کمرے میں جان لیوا فاسفین گیس خارج ہوئی، جو بچوں اور خاتون کی اموات کا سبب بنی۔ انہوں نے بتایا کہ تجزیئے کے بعد کھٹمل مار دوا کے 90 فیصد شواہد ملے ہیں۔ ادھر پولیس حکام کا کہنا ہے کہ کمرے سے ملنے والے ایلمونیم فاسفائیڈ کے ذرات 8 سے 10 ٹیبلیٹس کے برابر ہیں۔ کھٹمل مار دوا کی گولیاں بیڈ کے گدے کے نیچے چاروں کونوں اور فرش پر رکھی گئی تھیں۔ فیصل کاکڑ، ان کی اہلیہ بیڈ پر، جبکہ پانچ بچے اور ان کی پھوپھی فرش پر سوئی تھیں۔ اسی سبب وہ بری طرح متاثر ہوئے۔
واضح رہے کہ جامعہ کراچی کے تحقیقی مرکز برائے کیمیائی و حیاتیاتی علوم نے ابتدائی رپورٹ کمشنر کراچی اور پولیس کے حوالے کر دی ہے۔ جبکہ حتمی رپورٹ تیار ہونا باقی ہے۔ پولیس نے 6 اموات کا مقدمہ بچوں کے چچا کی مدعیت میں درج کیا تھا۔ جس میں قتل بالسبب اور دیگر دفعات شامل کی گئی تھیں۔ مقدمے میں اموات کا سبب جراثیم کش ادویات کے چھڑکاؤ سے ہونے کا شک ظاہر کیا گیا تھا۔ اس حوالے سے ایس ایس پی پیر محمد شاہ کا کہنا ہے کہ ’’ہم نے مختلف چیزوں کے نمونے لے کر پنجاب سائنس فارنسک لیبارٹری کو بھی بھیجے تھے۔ حتمی رپورٹ میں جامعہ کراچی اور محکمہ فوڈ کی رپورٹس کو بھی شامل کیا جائے گا‘‘۔ ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ ’’نوبہار ہوٹل کو سیل کرنے کا معاملہ اس کے کچن کی ناقص صورت حال کو دیکھ کر سندھ فوڈ اتھارٹی حکام نے کیا تھا‘‘۔ سندھ فوڈ اتھارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ شک کی بنیاد پر نوبہار ہوٹل صدر کو سیل کیا گیا تھا اور جب تک حتمی رپورٹ نہیں آجاتی ہوٹل کو سیل ہی رکھا جائے گا۔ ذرائع کے بقول سندھ فوڈ اتھارٹی نے اسی بنیاد پر قصر ناز میں چھاپہ مارا تھا اور اس کا کچن سیل کیا تھا۔ اب سیمپلز کی رپورٹ کے آنے کے بعد حتمی کارروائی کی جائے گی۔
زرعی ماہر شیخ شفقت الہی کا کہنا ہے کہ ’’ایلمونیم فاسفائیڈ نامی گولیاں شہر میں متعدد مقامات پر سر عام فروخت ہو رہی ہیں۔ یہ ایک مہلک قسم کی گولی ہے، جس کو کسی بھی کمرے میں رکھ دیا جائے اور اس کمرے کا دورازہ بند کر دیا جائے تو اس میں موجود ہر ذی روح مر جائے گی۔ کیونکہ یہ گولی کھلنے کے بعد اس سے فاسفین گیس نکلتی ہے۔ یہ دوا عام دکاندار کو فروخت کرنا منع ہے۔ جبکہ یہ آج کل چائنا سے منگوائی جارہی ہیں اور بعض امپورٹرز منگواتے وقت اس پر کھٹمل اور چوہے مار دوا کے لیبل لگوا کر منگواتے ہیں اور یہاں پر فیومیگیٹرز حضرات اس سے فیومیگیشن کرتے ہیں۔ شیخ شفقت الہی کا کہنا ہے کہ جس طرح اسپرٹ، شراب اور اسلحہ فروخت کرنے کے لائسنس دیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح اس زہر کو فروخت کرنے کے بھی لائسنس جاری کئے جائیں، تاکہ غلط فروخت و استعمال کی صورت میں فروخت کرنے والے کیخلاف بھی کارروئی کی جائے۔ یہ گولیاں اکثر زرعی ماہرین مختلف پڑیاں بنا کر گوداموں میں رکھتے ہیں، تاکہ چاول اور گندم کو کیڑا نہ لگے‘‘۔ کمشنر کراچی افتخار احمد شلوانی کا کہنا ہے کہ ’’میرے سامنے ابھی کوئی رپورٹ نہیں آئی۔ رپورٹ آنے کے بعد ہی کوئی حتمی بات کی جائے گی۔ سیمپلز سب جگہوں پر گئے ہوئے ہیں‘‘۔
واضح رہے کہ دنیا بھر میں زہریلے کھانے سے سالانہ مرنے والوں کا ریشو 42 لاکھ سے زائد ہے۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے مطابق دنیا بھر میں مضر صحت کھانا کھانے سے ہر سال 60 کروڑ افراد بیمار ہوجاتے ہیں، جن میں سے 42 لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ ان ہلاکتوں میں ایک تہائی تعداد بچوں کی ہوتی ہے۔ 2010ء سے اب تک کے ڈیٹا سے بنائی جانے والی رپورٹ میں 31 مخلتف ایسی مضر صحت کھانے کی اشیا کی نشاندہی کی گئی ہے، جو لاکھوں افراد میں بیماریاں پھیلانے کا باعث بن رہی ہیں۔ دنیا بھر میں 5 سال سے کم عمر بچوں کی آبادی صرف 9 فیصد ہے۔ لیکن مضر صحت خوراک کے باعث بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں میں مذکورہ عمر کے بچوں کی تعداد 40 فیصد ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہر سال خوراک سے پیدا ہونے والی بیماریوں کے باعث 55 کروڑ افراد اسہال کی بیماری کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جن میں سے 23 لاکھ ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جبکہ اس میں 96 ہزار پانچ سال سے کم عمر کے بچے شامل ہیں۔ ان بیماریوں کا سب سے زیادہ شکار افریقہ اور جنوب مشرقی ایشیا کی ریاستیں ہیں، جہاں مجموعی طور پر ہر سال 31 ہزار 200 اموات ہوتی ہیں۔ جبکہ یورپ میں یہ تعداد 5000 اور امریکا میں 9000 ہے۔٭
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment