ابو وداعہؒکہتے ہیں کہ سیدنا سعید بن مسیبؒ نے فرمایا: ’’اے ابووداعہ! اپنی اہلیہ کی وفات کے بارے میں ہمیں بتایا گیا ہوتا، ہم آپ کے پاس غم خواری کے لئے آتے اور اس کے جنازے میں شریک ہوتے اور کسی کام میں مدد کی ضرورت ہوتی تو ہم مدد کرتے۔‘‘
میں نے کہا: ’’خدا آپ کو جزائے خیر عطا کرے۔‘‘
میں جب گھر جانے کے لئے اٹھا، آپ نے فرمایا: ’’ابھی میرے پاس بیٹھو۔‘‘
جب تمام شاگرد اٹھ کر چلے گئے، تو آپ نے فرمایا: ’’اے ابووداعہ! کیا ابھی تک دوسری شادی کا ارادہ نہیں کیا۔‘‘
میں نے عرض کیا: ’’خدا آپ کو خوش رکھے! بھلا اب کون اپنی بیٹی مجھے دے گا۔ میں ایک ایسا نوجوان ہوں جس کی پرورش یتیمی میں ہوئی، مسلمل غربت اور فقیری میں زندگی کے دن پورے کررہا ہوں، میرے پاس دو یا تین درہم سے زیادہ رقم بھی نہیں۔‘‘
استاد محترم حضرت سعید بن مسیبؒ نے میری یہ داستان غم سن کر شفقت ومحبت کے انداز میں ارشاد فرمایا: ’’( پریشان نہ ہو) میں اپنی لاڈلی بیٹی کی شادی تم سے کرتا ہوں۔‘‘
اپنے استاد کے منہ سے یہ الفاظ سن کر میں حیران رہ گیا، میں نے شرماتے ہوئے کہا آپ! پھر تھوڑی ہمت کرکے میں کہا: ’’استاد محترم! کیا آپ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے کریں گے، حالاں کہ آپ کو میرے حالات کا اچھی طرح علم ہے۔‘‘
فرمایا: ’’جی ہاں! ہمارے پاس جب کوئی ایسا شخص آتا ہے جس کے دین اور اخلاق سے ہم راضی ہوں، تو ہم اسے اپنا بنانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، چوں کہ میرے نزدیک دین و اخلاق کے لحاظ سے آپ بہت بہتر ہیِں، اس لئے میں آپ کو اپنا داماد بنانے میں خوشی محسوس کرتا ہوں۔‘‘
پھر آپؒ نے مسجد میں موجود لوگوں کو اپنے پاس بلایا، جب چند لوگ آپ کے پاس آکر بیٹھ گئے تو آپ نے نکاح کا خطبہ پڑھ کر اپنی لاڈلی حسین و جمیل اور سمجھ دار بیٹی کی شادی مجھ سے کردی اور مہر صرف دو درہم مقرر کیا، میں وہاں سے اٹھا، خوشی اور حیرت کے ملے جلے جذبات سے اپنے گھر کی طرف روانہ ہوا۔
مجھے کچھ پتہ نہیں چل رہا تھا کہ زبان سے کیا کہوں، کس طرح شکریہ ادا کروں، انہیں خیالات میں کھویا ہوا میں اپنے گھر پہنچ گیا، میرا اس دن روزہ تھا، وہ بھی مجھے یاد نہ رہا، میں اپنے دل سے کہنے لگا:
’’اے ابووداعہ! تجھ پر افسوس تو نے یہ کیا کر دیا، اب کس سے قرض لو گے، کس سے مال طلب کرو گے؟‘‘
میں سارہ دن اسی غم و رنج میں مبتلا رہا اور آنے والے حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے پریشانی کے عالم میں سوچتا رہا، یہاں تک کہ مغرب کی اذان ہوگئی۔
میں نے نماز ادا کی، پھر کھانے کے لئے، گھر میں روٹی اور زیتون کے تیل کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ میں نے ابھی ایک یا دو لقمے ہی لئے ہوں گے کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، میں نے وہیں بیٹھے ہوئے پوچھا:
’’کون ہے رات کے وقت آنے والا؟‘‘
جواب ملا سعید! یہ نام سن کر میں سوچنے لگا، میرا جاننے والا سعید کون ہے؟
حضرت سعید بن مسیبؒ کی طرف میرا دھیان ہی نہیں گیا اور نہ ہی میرے تصور میں تھا کہ وہ بھی اس طرح اچانک میرے دروازے پر تشریف لا سکتے ہیں، کیوں کہ گزشتہ چالیس سال کے عرصے میں وہ اپنے گھر اور مسجد نبوی کے علاوہ کہیں نہیں دیکھے گئے۔
میں نے دروازہ کھولا تو یہ دیکھ کر حیرت میں گم ہو گیا کہ، سامنے حضرت سعید بن مسیبؒ کھڑے ہیں، دل میں کٹھکا محسوس ہو کہ شاید انہوں نے رائے بدل لی ہے۔ میںکہا:
’’حضرت آپ نے پیغام بھیج دیا ہوتا، میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہوجاتا۔‘‘
فرمایا: ’’ہرگز نہیں! میں آج ایک ضروری کام کے لئے آیا ہوں۔‘‘
میں کہا: ’’خدا رحم کرے ایسا کون سا ضروری کام پڑ گیا؟‘‘
فرمایا: ’’چوں کہ میں نے اپنی بیٹی کا آج دوپہر کو تم سے نکاح کردیا ہے، اس لئے وہ تمہاری بیوی بن چکی ہے، میں جانتا ہوں کہ گھر میں تمہارا کوئی نہیں، مجھے یہ بات اچھی نہیں لگی کہ تم ایک مکان میں رات گزارو اور وہ الگ مکان میں رات گزارے، اس لئے تمہاری بیوی کو چھوڑنے آیا ہوں۔‘‘
میں نے تعجب سے پوچھا، میری بیوی کو آپ اپنے ساتھ لے آئے ہیں؟
انہوں نے فرمایا: ہاں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭