حضرت یعقوب زیاتؒ کی عارفانہ شان کے بارے میں حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں۔
’’میں پہلی بار اپنے استاد کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت شیخ یعقوبؒ کے دروازے پر بہت سے طالبان دیدار کھڑے تھے۔ ہمارا خیال تھا کہ حضرت شیخؒ ہمیں اندر آنے کی اجازت دے دیں گے۔ مگر یکایک خانقاہ کے دروازے پر ایک خدمت گار نمودار ہوا اور اس نے ہم لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔
’’شیخ نے فرمایا ہے کہ کیا تم لوگوں کے لئے رب تعالیٰ کا مشغلہ کافی نہیں جو اس کا ذکر چھوڑ کر میرے پاس آئے ہو؟‘‘
حضرت شیخ یعقوب زیاتؒ کا ارشاد گرامی سن کر دوسرے درویش تو کچھ نہیں بولے مگر میں نے آپؒ کے خادم سے عرض کیا۔
’’جب حضرت شیخ ؒ کی خدمت میں حاضر ہونا بھی اسی کے شغل میں داخل ہے تو پھر ہم لوگ کیوں حاضر نہ ہوں۔‘‘
جب حضرت شیخ یعقوب زیاتؒ نے حضرت جنید بغدادیؒ کی بات سنی تو آپؒ کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ حضرت جنید بغدادیؒ نہایت ادب اور عقیدت کے ساتھ حضرت شیخ یعقوبؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور توکل کے موضوع پر بحث چھیڑ دی۔
اتفاق سے اس وقت حضرت شیخ یعقوبؒ کے پاس ایک درہم موجود تھا۔آپؒ نے فوراً اپنے ایک خدمت گار کو طلب کیا اور وہ درہم اس کے حوالے کر دیا پھر اس کے بعد ’’توکل‘‘کے موضوع پر نہایت عالمانہ تقریر کی جسے سن کر حضرت جنید بغدادیؒ بہت متاثر ہوئے۔ پھر جب تقریر ختم ہوگئی تو آپؒ نے جنید بغدادیؒ کو مخاطب کر کے فرمایا:
’’مجھے اس بات سے شرم آئی کہ توکل پر گفتگو کروں اور خود میرے پاس کچھ رقم موجود ہو۔‘‘
اس واقعے سے قارئین اندازہ کر سکتے ہیں کہ حضرت شیخ یعقوب زیاتؒ کس شان کے صوفی تھے۔
حضرت جنید بغدادیؒ فرماتے ہیں: ’’میں نے دو سو اساتذہ سے اکتساب علم کیا۔‘‘
مگر یہ اہل طلب کی کم نصیبی ہے کہ وہ حضرت جنید بغدادیؒ کے چند استادوں کے حالات اور نام سے باخبر ہو سکے۔ باقی بزرگوں کے اسمائے گرامی اور حالات زندگی پر گہرا پردہ پڑا ہوا ہے۔ تاہم جن اساتذہ کے نام اور علمی کارنامے تاریخ کے اوراق میں محفوظ ہیں انہیں دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ نابغہ روزگار انسان تھے اور ان ہی کے بے داغ ہاتھوں نے اس لالہ صحرائی کی حنا بندی کی تھی۔
عام طور پر اولیائے کرامؒ نے طلب علم اور جذبہ عشق کی پیاس بجھانے کیلئے انتہائی طویل اور دشوار گزار سفر اختیار کئے۔ مثال کے طور پر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ہی کو دیکھئے کہ سجستان (ایران) میں پیدا ہوئے۔ پھر اپنے پیرو مرشد حضرت خواجہ عثمان ہارونیؒ کے ساتھ مسلسل چودہ سال تک سفر میں رہے۔ پھر ملتان تشریف لائے جو اس وقت کفرو باطل کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس کے بعد اجمیر تشریف لائے اور اس سنگلاخ علاقے میں ہمیشہ کیلئے سکونت پذیر ہوگئے، جہان کے دیوتا بھی پتھر بنے ہوئے تھے اور زمین بھی پتھر کی تھی اور اس پر بسنے والے انسان بھی پتھر کے دل و دماغ رکھتے تھے۔ اگر آپ تاریخی تصوف کا مطالعہ کریں گے تو ایسے بہت سے نام نظر آجائیں گے۔ مگر شاید جنید بغدادیؒ وہ تنہا صوفی ہیں جو بغداد میں پیدا ہوئے، اسی شہر میں تعلیم حاصل کی اور اسی خطہ ارض میں آسودہ خاک ہوئے۔
حضرت جنید بغدادیؒ نے اپنی زندگی میں صرف دو بار حج کی سعادت حاصل کی۔ ایک بار حضرت سری سقطیؒ سات سال کی عمر میں اپنے ہمراہ حجاز مقدس لے گئے تھے۔ پھر دوسری مرتبہ عہد جوانی میں آپؒ مکہ معظّمہ حاضر ہوئے۔ ارکان حج ادا کرنے کے بعد حضرت جنید بغدادیؒ مشائخ کی ایک تقریب میں تشریف فرما تھے۔ عشق الٰہی کا مسئلہ چھیڑا ہوا تھا۔ ہر بزرگ اپنے اپنے تجربے اور مشاہدے کے اعتبار سے عشق کے رموز و نکات بیان کر رہا تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ پورے انہماک کے ساتھ مشائخ کی تقریریں سن رہے تھے۔ آخر بہت دیر بعد ایک بزرگ آپؒ سے مخاطب ہوئے۔
’’شیخ بغدادی! آپ بھی تو کچھ فرمائیے کہ عشق الٰہی کیا ہے؟‘‘
مشائخ کی بات سن کر حضرت جنید بغدادیؒ نے سر جھکا لیا اور کچھ دیر تک اسی حالت میں بیٹھے رہے۔ پھر آپؒ نے سر اٹھایا تو آنکھوں میں آنسو تھے۔
’’اے رہروان کوچہ عشق! میں تم سے کیا کہوں کہ عشق الٰہی کیا ہے؟ جو بندہ اپنے نفس سے گزر جائے، وہ خدا کے قریب ہے۔ ظاہر کی آنکھ ہو یا دل کی، وہ ہر حال میں اسی کا جمال دیکھ رہا ہے۔ ایسے بندے کا دل اگر تجلیات حق سے جل جائے تو کیا تعجب ہے؟ اور اگر وہ مست و بے خوف ہو جائے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ قادر مطلق اس پر غیب کے پردے اٹھا دیتا ہے۔ پھر وہ کلام کرتا ہے تو خدا کا۔ اس کی زبان خدا کے سوا کسی لفظ سے آشنا نہیں ہوتی۔ وہ حرکت کرتا ہے تو صرف خدا کے حکم سے اور اگر ٹھہرتا ہے تو اس کی مرضی سے، مختصر یہ کہ وہ خدا کیلئے ہے اور خدا ہی کے ساتھ ہے۔‘‘
ابھی حضرت جنید بغدادیؒ اتنا ہی کہنے پائے تھے کہ تمام مشائخ بے چین ہو کر رونے لگے۔ پھر سب نے بیک زبان کہا:
’’اے تاج العارفین! اس سے بڑھ کر عشق کی تعریف نہیں ہو سکتی۔ رب تعالیٰ آپ کے کمالات میں مزید ترقی عطا فرمائے۔‘‘ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭