سیدنا نعیم بن مسعودؓ ایک ایسے بیدار مغز تیز فہم، ذہین و فطین اور چست و چالاک شخص تھے، جن کی راہ میں نہ تو کوئی پیچیدہ مسئلہ حائل ہو سکتا تھا، نہ ہی وہ کسی مشکل معاملے کو حل کرنے میں ناکام ہو سکتے تھے، صحرا کا یہ سپوت خدا تعالیٰ کی بخشی ہوئی غیر معمولی صلاحیتوں، صحت فراست، سریع ذہن اور تیز عقل کے باعث ایک بے مثال شخصیت کا حامل تھا، لیکن اس کے ساتھ وہ بڑا رنگین مزاج، رنگ رلیوں کا دلدادہ اور گانے بجانے کا شوقین بھی تھا۔ ان دلچسپیوں اور خواہشات کی تکمیل کے لیے وہ اکثر و بیشتر مدینہ کے یہودیوں کے یہاں جاتا رہتا تھا۔
چنانچہ جب بھی اس کا دل کسی مغنیہ کے لیے بے چین ہوتا یا ا س کے کان بربط و رباب کے تاروں سے نکلنے والے دلکش اور محسور کن نغموں کے لیے بے قرار ہوتے تو وہ نجد سے جہاں اس کا قبیلہ آباد تھا، سیدھا مدینے پہنچتا اور وہاں یہودیوں پر دل کھول کر مال و دولت لٹاتا تاکہ وہ اس کی دلچسپیوں کا بھرپور انتظام کریں، اسی وجہ سے نعیم بن مسعود اکثر مدینہ آتا جاتا رہتا اور یہودیوں، خصوصاً یہود بنی قریظہ کے ساتھ اس کے بڑے گہرے اور مضبوط روابط تھے۔
جب خدا تعالیٰ نے انسانیت کو اپنے کرم سے نوازتے ہوئے اپنے رسولؐ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث فرمایا اور مکے کی وادیاں آفتاب اسلام کی تابانیوں سے جگمگا اٹھیں، نعیم بن مسعود خواہشات کی باگ اپنے نفس کے ہاتھ میں ڈھیلی چھوڑ کر پیہم ان کی پیروی میں منہمک تھا اور اس نے اس نئے دین سے صرف اس اندیشے کے تحت سختی کے ساتھ اعراض کیا کہ کہیں یہ دین اس کی لذت کوشیوں پر قدغن لگا کر اس کی زندگی کا سارا مزہ کر کرا نہ کر دے، لیکن کچھ ہی دنوں بعد اسلام کے بدترین دشمنوں کی صف میں شامل ہو کر اس نے اپنی تلوار اس کے مقابلے کے لیے بے نیام کر لی۔
لیکن غزوئہ احزاب کے موقع پر نعیم بن مسعود نے اسلام کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا اور اس باب میں انہوں نے اپنے ہاتھ سے وہ داستان رقم کی جو جنگی چالوں پر مشتمل داستانوں میں سب سے حیرت آفریں اور تعجب انگیز داستان ہے۔ ایک ایسی داستان جس کے محکم اجزاء اور اس کے عاقل و دانا ہیرو کا تذکرہ مورخ کا قلم ہمیشہ حیرت و استعجاب کے ساتھ کرتا رہے گا۔
سیدنا نعیم بن مسعودؓ کی اس نرالی داستان سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے ہمیں تھوڑا سا پیچھے کی طرف لوٹنا ہو گا۔ غزوئہ احزاب سے کچھ عرصہ پہلے مدینے کے یہودیوں کی ایک ٹولی جس کا تعلق بنو نضیر سے تھا، حرکت میں آئی اور اس کے لیڈروں نے رسول اکرمؐ کے ساتھ جنگ کرنے اور ان کے دین پر فیصلہ کن ضرب لگانے کے لیے مختلف قبیلوں کو منظم کرنا شروع کیا، سب سے پہلے وہ قریش مکہ کے پاس پہنچے اور ان کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر ابھارا اور ان سے اس بات کا مضبوط عہد و پیمان کیا کہ جب تم لوگ فوج لے کر مدینہ پہنچو گے تو ہم بھی اپنی قوت کے ساتھ تمہارے ساتھ شامل ہو جائیں گے۔
پھر ان کو چھوڑ کر وہ لوگ نجد میں بنو غطفان کے پاس گئے اور انہیں اسلام اور اس کے نبیؐ کے خلاف خوب خوب بھڑکایا، اسلام کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کی دعوت دی اور وہ ساری باتیں تفصیل سے ان کو بتائیں، جو قریش اور ان کے درمیان طے ہوئی تھیں، پھر ان کے ساتھ بھی انہی شرائط پر معاہدہ کیا اور طے شدہ وقت سے آگاہ کر کے واپس چلے آئے۔
ادھر قریش ایک لشکر جرار کے ساتھ جس میں ان کے پیدل اور گھڑ سوار دستے شامل تھے، اپنے سپہ سالار ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں اور ادھر غفطان پورے جنگی ساز و سامان اور جمعیت کثیر کے ساتھ اپنے قائد عیینہ ابن حصن غطفانی کی سرکردگی میں مدینہ کی طرف چل پڑے۔ ہماری اس داستان کا ہیرو نعیم ابن مسعود بھی اپنے قبیلے بنو غطفان کے ہراول دستے میں شامل تھا۔
جب رسول اکرمؐ کو ان کی روانگی کی خبر ملی تو آپؐ نے صحابہ کرامؓ کو جمع کر کے اس معاملے میں ان کی رائے طلب کی۔ آخر باہمی مشورے سے یہ بات طے ہوئی کہ مدینہ کے ارد گرد ایک خندق کھود لی جائے تاکہ وہ خندق اس لشکر کے سامنے حائل ہو جائے اور ہم اس کے حملے سے اپنا تحفظ کر سکیں، کیونکہ کھلے میدان میں مقابلہ کرنے کی ہمارے پاس طاقت نہیں ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭