نئے اسرائیلی ہتھیاروں کی آزمائش فلسطینی بچوں پر کی جانے لگی

ضیاء الرحمن چترالی
فلسطین کے ساحلی شہر غزہ کی پٹی میں 2006ء میں ’’حماس‘‘ کی حکومت کے قیام کے بعد سے لاکھوں شہری اسرائیل کی انتقامی کارروائیوں کی زد میں ہیں۔ ایک طرف صہیونی ریاست نے غزہ کے تین اطراف میں ہر قسم کی آمد و رفت اور سامان کی ترسیل بند کر رکھی ہے۔ جس سے ایک طرف غزہ میں اشیائے ضروریہ کی شدید قلت ہوگئی ہے۔ تو دوسری جانب صہیونی ریاست کی جانب سے فلسطینی بچوں پر مہلک ہتھیاروں کی آزمائش کا انکشاف ہوا ہے۔ اس بات کا اعتراف خود اسرائیلی پروفیسر نے اپنی تحقیق میں کیا ہے۔ مرکز اطلاعات فلسطین نے پریس ٹی وی کی رپورٹ کے حوالے سے بتایا ہے کہ پروفیسر نادیرا شالہوب کیوورکین نے چند روز قبل کولمبیا یونیورسٹی میں دیئے گئے اپنے ایک لیکچر میں کہا کہ ’’اسرائیل فلسطینی بچوں پر مہلک ہتھیاروں کی آزمائش کرتا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ ’’فلسطینی مقامات اسرائیلی سیکورٹی انڈسٹری کی لیبارٹریاں ہیں‘‘۔ اسرائیل آرمی ریڈیو کی رپورٹ کے مطابق جامعہ عبرانی یروشلم کی سوشل ورک کی پروفیسر نے چند بچوں کے بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی فوج خاص طور پر نوجوان نسل کو ہتھیاروں کی اس آزمائش کا نشانہ بناتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق محمد نامی بچے نے کہا کہ ’’اسرائیلی آرمی یہ جائزہ لیتی ہے کہ ہمارے خلاف کون سے بم استعمال کریں۔ ہمیں رائفل، گیس بم یا اسٹنگ بم سے مارا جائے۔ ہمارے اوپر پلاسٹک کے بیگز رکھے جائیں یا کپڑے رکھے جائیں‘‘۔ دابوش کی رپورٹ کے مطابق عرب پروفیسر کی تقریر کا عنوان ’’فلسطینی یروشلم میں تشدد کی ٹیکنالوجی‘‘ تھا، جو جامعہ عبرانی میں کی گئی تحقیق پر مبنی تھا، جسے بیرون ملک جامعہ عبرانی کی تحقیق کے طور پر جانا جاتا ہے۔ تاہم جامعہ عبرانی کی جانب سے لیکچر پر کوئی مذمت نہیں کی گئی، بلکہ صرف یہ کہا گیا کہ پروفیسر کی جانب سے پیش کیے گئے خیالات یونیورسٹی کے نظریات کی ترجمانی نہیں کرتے۔ یونیورسٹی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا کہ ’’یہ پروفیسر کے ذاتی خیالات ہیں، جس کا انہوں نے خود اظہار کیا ہے‘‘۔ اسرائیلی فوج کے خلاف نئے الزامات سے قبل اکثر میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اسرائیلی فوج قتل کیے جانے والے فلسطینی بچوں کے اعضا کا کاروبار کرتی ہے۔ بلجیم کی اے سی او ڈی ٹریڈ یونین کے ثقافتی سیکریٹری اور فلاسفی آف سائنس کے اسکالر رابرٹ واندر بیکین نے اگست 2018ء میں کہا تھا کہ ’’غزہ کی پٹی پر موجود آبادی بھوک سے مر رہی ہے۔ انہیں زہر دیا جا رہا ہے۔ بچوں کو ان کے اعضا کے لیے اغوا اور قتل کیا جا رہا ہے‘‘۔ اس سے قبل نومبر 2015ء میں اقوام متحدہ میں فلسطینی سفیر نے کہا تھا کہ اسرائیل فلسطینیوں کو قتل کرکے ان کے اعضا نکال لیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کو لکھے گئے خط میں ریاض منصور نے کہا تھا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے قتل کیے گئے فلسطینیوں کی لاشوں کورنیا اور دیگر اعضا کے بغیر واپس کی جاتی تھیں۔ خیال رہے کہ نیو یارک ٹائمز نے اگست 2014ء میں شائع کی گئی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ 2000ء سے اسرائیل انسانی اعضا کی غیر قانونی اسمگلنگ میں ’’غیر معمولی کردار‘‘ ادا کر رہا ہے۔ جبکہ اسرائیل کی جانب سے اعضا کی چوری سے متعلق سب سے پہلے سویڈن کے معروف اخبار ایفٹون بلیڈیٹ نے 2009ء میں رپورٹ کیا تھا۔ اسرائیل میں بڑھتی ہوئی تنقید کی وجہ سے اینکر کو وضاحت دینی پڑی اور انہوں نے کہا کہ ’’میری تنقید ان سپاہیوں کی جانب تھی، جو فلسطین پر قبضے کے دوران معصوم افراد کو تکلیف پہنچاتے ہیں‘‘۔ واضح رہے کہ انسانی حقوق کے سرگرم کارکنان اور ان کے وکلا کی جانب سے فلسطینی قیدیوں کے ساتھ اسرائیلی مظالم کے خلاف آواز اٹھائی جاتی رہی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی قیدیوں کی جمعیت کی طرف سے جاری کردہ تحریری بیان میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل زیر حراست فلسطینی بچوں پر بدترین تشدد کر رہا ہے۔ جیلوں میں بند 60 فیصد بچے جسمانی و نفسیاتی تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ بچوں پر کئے جانے والے تشدد میں انہیں رات گئے حراست میں لے کر جیلوں میں ڈالنا، جسمانی حملوں کا نشانہ بنانا، ڈرا دھمکا کر طویل عرصے تک تفتیش کرنا، طویل عرصے تک کھانے پینے سے محروم رکھنا اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنانا شامل ہیں۔ فلسطینی قیدیوں کی جمعیت سمیت متعدد اداروں کی شراکت سے تیار کردہ ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیلی جیلوں میں اس وقت 7 ہزار فلسطینی قیدی بند ہیں، جن میں سے 481 مقبوضہ مشرقی بیت المقدس سے ہیں۔ 57 عورتیں اور 300 بچے بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی جیلوں میں سب سے پرانے قیدی محمد نبیل ہیں۔ جو اپنی مسلسل اسیری کے پرخار سفر کے 24 سال پورے کرنے کے بعد قید کے 25 ویں سال میں داخل ہوگئے ہیں۔ ان کا تعلق غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل سے ہے۔ فلسطینی اسیران اسٹڈی سینٹر کے ترجمان ریاض الاشقر نے بتایا کہ العرقان 24 فروری 1995ء سے پابند سلاسل ہیں۔ انہیں اسرائیلی عدالت سے دو بار عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ العرقان کو مسلسل 11 سال تک صہیونی عقوبت خانوں میں غیر انسانی ماحول میں رکھا گیا ہے۔
٭٭٭٭٭

Comments (0)
Add Comment