امت رپورٹ
پورا دن سوگ اور کنفیوژن میں رہنے والے بھارتی حکام نے بدھ کی شام کو جاکر بڑی مشکل سے اعتراف کیا کہ ان کا طیارہ پاکستان نے مار گرایا ہے اور یہ کہ طیارے کا پائلٹ ابھی نندن پاکستان کی کسٹڈی میں ہے۔ دہلی سرکار نے پاکستانی تحویل میں موجود انڈین ایئر فورس کے پائلٹ کی فوری اور محفوظ واپسی کی توقع بھی ظاہر کی ہے۔ (یاد رہے کہ پاکستان نے فضائی معرکے میں بھارت کے دو طیارے گرائے ہیں۔ جس کا ذکر فوجی ترجمان بھی کر چکے ہیں)۔ قبل ازیں سارا دن بھارتی ماہرین، تجزیہ نگار اور صحافی سوشل میڈیا پر بھارتی حکام کی خاموشی پر سوال اٹھاتے رہے کہ وہ پاکستان کے ہاتھوں طیاروں کی تباہی اور پائلٹ کی گرفتاری کی تصدیق کیوں نہیں کر رہے۔ ان میں بعض ایسے بھی تھے جنہوں نے گرفتار بھارتی پائلٹ کی ویڈیو کو ایک روز پرانی قرار دیا۔ تاہم شام کو بالآخر جب بھارتی حکام نے طیارے کی تباہی اور پائلٹ کی گرفتاری کی تصدیق کی تو ویڈیو کو پرانی قرار دینے والوں کو سانپ سونگھ گیا۔ دہلی میں موجود ذرائع کے مطابق گرفتار پائلٹ کے اہل خانہ کا بھی بھارتی حکام پر شدید دبائو تھا کہ وہ جلد از جلد گرفتاری کی تصدیق کرکے ان کے بیٹے کو ’’اون‘‘ کریں۔ پائلٹ ابھی نندن کے باپ سابق ایئر مارشل شیما ورتھمان نے انڈین ایئرفورس کے ذمہ داران سے براہ راست رابطہ کر کے باقاعدہ احتجاج بھی کیا اور کہا کہ وہ ان کے بیٹے کو ’’اون‘‘ کرنے میں تاخیر کرکے اس کی زندگی خطرے میں ڈال رہے ہیں۔ ذرائع کے بقول بھارتی حکام اگر مزید تاخیر کرتے تو ابھی نندن کے اہل خانہ نے اس رویے کے خلاف پریس کانفرنس کی تیاری کرلی تھی۔ ذرائع نے بتایا کہ سوشل میڈیا پر زخمی حالت میں اپنے بیٹے کی ویڈیو دیکھ کر ابھی نندن کی ماں کی حالت غیر ہوگئی۔ تاہم جب کچھ دیر بعد انہوں نے اپنے بیٹے کو سکون سے کافی کی چسکی لیتے دیکھا تو شانت ہوگئیں۔ واضح رہے کہ اپنے ویڈیو پیغام میں ابھی نندن نے مشتعل ہجوم سے بچانے پر پاک فوج کے کیپٹن اور جوانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے ان کے رویے کی تعریف کی۔ ونگ کمانڈر ابھی نندن کا کہنا تھا کہ ’’پاک فوج کے جوانوں اور افسروں کا رویہ متاثر کن ہے۔ میں چاہتا ہوں انڈین آرمی بھی ہم سے ایسا ہی برتائو کرے‘‘۔ دہلی میں موجود ایک صحافی نے بتایا، اس ویڈیو کے جاری ہونے کے بعد سے نندن کی فیملی خوش ہے اور وہ پاک فوج کے رویے کی تعریف کر رہی ہے۔ صحافی کے بقول اس صورتحال پر Embarrass بھارتی حکام نے ونگ کمانڈر کے گھر کی سیکورٹی سنبھال کر ایک طرح سے پورے خاندان کو یرغمال بنا رکھا ہے اور کسی صحافی کو ابھی نندن کی فیملی سے ملنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ سارا دن میڈیا کے لوگ گرفتار بھارتی پائلٹ کے اہل خانہ سے بات کرنے کی کوشش کرتے رہے، لیکن کامیاب نہیں ہو سکے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی حکام کو خوف ہے کہ اگر نندن فیملی نے بیٹے سے اچھے سلوک پر میڈیا کے سامنے پاک فوج کی تعریف کردی تو اس سے بھارت کی سبکی ہوگی۔
ادھر آزاد کشمیر میں موجود ذرائع نے بتایا کہ ابھی نندن کسی دبائو یا مکھن لگانے کے لئے پاک فوج کے جوانوں کی تعریف نہیں کر رہا، بلکہ حقیقت بیان کر رہا ہے۔ کیونکہ طیارہ ہٹ ہونے پر پیراشوٹ کے ذریعے چھلانگ لگاکر ابھی نندن جس مقام پر گرا، وہاں پاک فوج کے جوانوں سے پہلے مقامی افراد پہنچ چکے تھے۔ اگر پاک فوج کے جوان صرف پانچ منٹ بھی تاخیر سے آتے تو جذباتی افراد بھارتی پائلٹ کا قصہ تمام کر چکے ہوتے۔ تاہم پاک فوج کے جوانوں نے موقع پر پہنچ کر ابھی نندن کی جان بچائی اور اسے اپنی کسٹڈی میں لے لیا۔ ابھی نندن کی ناک اور چہرے پر معمولی زخم ہیں، جس کا خون اس کے چہرے پر پھیلا ہوا تھا۔ بعد ازاں ابھی نندن کو فوری طبی امداد دے کر اس کا چہرہ صاف کر دیا گیا اور کافی سے اس کی تواضع کی گئی۔ یاد رہے کہ قبل ازیں پاک فوج کے ترجمان نے بھی کہا تھا کہ گرفتار بھارتی پائلٹ سے وہی سلوک کیا جارہا ہے، جو ایک مہذب ملک کرتا ہے۔
بھارت نے اگرچہ اپنے ونگ کمانڈر ابھی نندن کی فوری حوالگی کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم معروف عسکری تجزیہ نگار بریگیڈیئر (ر) آصف ہارون کا کہنا ہے کہ کارگل معرکے کے دوران کی جانے والی غلطی اب نہیں دوہرائی جانی چاہئے۔ بریگیڈیئر آصف ہارون کے بقول کارگل معرکے میں جب پاکستان نے بھارتی طیارہ گراکر اس کے پائلٹ کو گرفتار کیا تھا تو Goodwill (خیر سگالی) کے تحت فوری طور پر اسے بھارت کے حوالے کر دیا تھا۔ آصف ہارون کا کہنا ہے کہ اس بار خیر سگالی کے اس جذبے کو تھوڑا روک لینا چاہئے۔ کیونکہ ابھی نندن فی الحال ہمارے لئے ایک ’’اثاثہ‘‘ ہے اور اس سے مزید اہم معلومات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ اور پھر یہ کہ کل اگر کسی خاص قسم کی صورتحال درپیش ہو تو بھارتی پائلٹ کو بارگیننگ کے طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ جہاں تک گرفتار پائلٹ کی دیکھ بھال اور طبی سہولت کا تعلق ہے، اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑنی چاہئے اور اس کا خیال رکھا بھی جارہا ہے۔
بھارت اگرچہ اب بھی ڈھٹائی سے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ پاکستان سے فضائی معرکے میں اس کا ایک طیارہ تباہ ہوا۔ تاہم حقیقت یہی ہے کہ پاکستان نے دو بھارتی لڑاکا طیارے تباہ کئے۔ اس میں سے ایک کا ملبہ کنٹرول لائن کی دوسری طرف مقبوضہ علاقے میں اور ایک کا ملبہ آزاد کشمیر میں گرا، جس کا پائلٹ ابھی نندن پاکستان کی کسٹڈی میں ہے۔ تباہ شدہ بھارتی طیاروں کے بارے میں خبریں ہیں کہ دونوں روسی ساختہ مگ 21 تھے۔ تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ کنٹرول لائن کی دوسری طرف تباہ کیا جانے والا طیارہ روسی ساختہ سیخوئی ایس یو 30 تھا۔ اس سارے فضائی مشن کی سربراہی پاکستانی ونگ کمانڈر فہیم نے کی۔ بھارتی مگ 21 طیارے کو پاکستان ایئر فورس کے اسکواڈرن لیڈر حسن نے انجام تک پہنچایا۔ جبکہ سیخوئی ایس یو 30 فائٹر طیارے کو مارگرانے والے پاک ایئرفورس کے دوسرے ہیرو کا نام نعمان علی خان ہے۔
ادھر بھارتی اخبار دی پرنٹ کے مطابق بھارتی عسکری تجزیہ نگار اور ماہرین نے کیپ ڈیوٹی (Combat air patrol) کے لئے مگ 21 استعمال کرنے پر سوال اٹھادیئے ہیں۔ واضح رہے کہ کیپ مشن یا ڈیوٹی کا مقصد جنگ کی حالت میں طیاروں کو ایئر بورن کرنا ہوتا ہے، جو 24 گھنٹے پرواز کرکے پیٹرولنگ کرتے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے ہاتھوں تازہ ’’ڈوگ فائٹنگ‘‘ میں شکست کھانے پر بھارتی ماہرین کی جانب سے جس مگ 21 فائٹر طیارے پر اب اعتراض کیا جارہا ہے۔ یہی روسی ساختہ طیارے بھارت پاکستان کے خلاف 71ء کی جنگ اور بعد ازاں کارگل معرکے کے دوران بھی استعمال کرتا رہا ہے۔
روسی ساختہ مگ 21 ایک سپر سانک جیٹ فائٹر اور انٹرسیپٹر (راہ روکنے والا) طیارہ ہے۔ مگ 21 نے پہلی فلائٹ 24 فروری 1956ء کو بھری تھی۔ تاہم اسے 1959ء میں متعارف کرایا گیا۔ ابتدائی طور پر اس فائٹر طیارے کو سوویت ایئرفورس، کروشین ایئرفورس، رومانین ایئرفورس اور انڈین ایئرفورس نے استعمال کیا۔ بھارت کے پاس 657 مگ 21 تھے۔ تاہم پاکستانی ایئرفورس کے ہاتھوں ایک مگ 21 طیارہ مارگرائے جانے کے بعد اب ان طیاروں کی تعداد 656 رہ گئی ہے۔ پاکستان سے 1971ء کی جنگ میں بھارت نے مگ 21 طیارے استعمال کئے۔ بعد ازاں انڈین ایئرفورس نے 1999ء میں کارگل معرکے کے دوران پاکستان کے خلاف مگ 21 فائٹر طیارے استعمال کئے۔ تاہم اس محدود جنگ میں بھی پاکستان نے گرائونڈ سے فائر کرکے بھارتی مگ 21 مار گرایا تھا۔ جس کا پائلٹ گرفتار کرنے کے بعد بھارت کے حوالے کردیا گیا۔ تازہ معرکے میں گرائے جانے والے دو بھارتی طیاروں میں سے بھی ایک مگ 21 تھا۔ گرفتار ابھی نندن اسی طیارے کو اڑا رہا تھا۔
بھارت کا دوسرا گرایا جانے والا فائٹر طیارہ بھی روسی ساختہ تھا۔ سیخوئی ایس یو 30 کا ملبہ کنٹرول لائن کی دوسری طرف مقبوضہ کشمیر میں گرا۔ سیخوئی ایس یو 30 دو سیٹر سپر سانک فائٹر طیارہ ہے۔ سیخوئی طیارہ نے اگرچہ پہلی اڑان 1989ء میں بھری۔ تاہم اسے 1996ء میں متعارف کرایا گیا۔ بھارت کے پاس 240 سیخوئی طیارے تھے۔ تازہ فضائی معرکے کے بعد اب اس کے پاس ان طیاروں کی تعداد 239 رہ گئی ہے۔ شروع میں بھارت کے پاس روسی ساختہ سیخوئی طیارے تھے۔ بعد ازاں ہندوستان ایرو ناٹکس لمیٹڈ نے یہ طیارے خود اسمبل کرنا شروع کردیئے۔
بھارتی میڈیا میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ فضائی معرکے میں پاکستان کے ایف سولہ طیاروں نے حصہ لیا۔ تاہم پاک فوج کے ترجمان اس کی تردید کرچکے ہیں۔ ذرائع کے مطابق بھارتی طیاروں کو دندان شکن جواب دینے کے لئے پاکستان نے چینی ساختہ جے ایف 17 تھنڈر طیارے استعمال کئے۔
٭٭٭٭٭