ابووداعہؒ کہتے ہیں کہ:
میں نے چند قدم آگے بڑھ کر دیکھا، ایک خاتون سیدنا سعید بن مسیبؒ کے پیچھے کھڑی ہے۔ یہ ان کی بیٹی اور میری بیوی تھی۔ انہوں نے اپنی بیٹی کی طرف دیکھا اور ارشاد فرمایا:
’’بیٹی! خدا کے بابرکت نام اور (مسنون دعا کے ساتھ) اور اس کی برکت سے اپنے شوہر کے گھر میں قدم رکھو۔ بیٹی! اپنے شوہر کی عزت کرنا اور احترام سے پیش آنا۔‘‘
جب اس نے شرماتے ہوئے میرے گھر کے دروازے کی طرف قدم بڑھایا تو وہ شرما کر لڑکھڑا گئی، قریب تھا کہ زمین پر گر جاتی، لیکن وہ سنبھل گئی، میں اس کے سامنے حیرت و تعجب سے کھڑا تھا، کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ میں اس موقع پر کیا کہوں۔
میں نے بیوی کو چارپائی پر بٹھایا، جلدی سے کھانے کا پیالہ اٹھا کر ایک طرف رکھ دیا کہ کہیں بیوی کی نظر باسی روٹی اور زیتون پر نہ پڑ جائے، چوں کہ اس روٹی اور زیتون کے تیل کے علاوہ میرے گھر میں کچھ نہ تھا۔
میرے خیال میں آیا کہ اگر بیوی کی نظر اس سادہ اور معمولی کھانے پر پڑگئی، تو مجھے شرمندہ ہونا پڑے گا۔ پھر میں نے مکان کی چھت چڑھ کر پڑوسیوں کو آواز دی، انہوں نے گھبرا کر پوچھا کیا بات ہے؟
میں نے کہا: ’’حضرت سعید بن مسیب نے آج دوپہر اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کردیا ہے، اب وہ اچانک میری بیوی کو اپنے ساتھ لے کر میرے گھر تشریف لے آئے اور اسے یہاں چھوڑ کر واپس چلے گئے۔ ازراہ کرم چند خواتین کو میرے گھر بھیج دیں، تاکہ وہ میری بیوی کے پاس بیٹھیں اور اس کا دل بہلائیں اور میں اپنی والدہ کو بلا لاؤں، وہ یہاں سے کچھ دور رہتی ہیں۔‘‘
پڑوسیوں میں سے ایک بڑھیا نے کہا: ’’تمہاری عقل ٹھکانے ہے، کیا کہہ رہے ہو کہ سعید بن مسیبؒ نے اپنی بیٹی کی تم سے شادی کر دی ہے اور پھر بھی وہ خود ہی اپنی بیٹی کو چھوڑنے تمہارے گھر آگئے ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے؟
انہوں نے تو شہزادہ ولید بن عبد المالک کو رشتہ دینے سے انکار کردیا تھا۔ میں نہیں مانتی، یہ ہو ہی نہیں سکتا۔
ابووداعہؒ نے کہا: خالہ جان! آپ یقین کیجئے، یہ ہو چکا ہے، یقین نہیں آتا تو آپ میرے گھر آکر دیکھ لیں۔ میری یہ باتیں سن کر چند پڑوسی خواتین میرے گھر آئیں، انہوں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تو وہ حیران رہ گئیں۔
خواتین نے اسے خوش آمدید کہا اور اس سے اس کا دل بہلانے کے لئے باتیں کرنے لگیں۔
تھوڑی ہی دیر بعد میں نے اپنی والدہ کو اپنے گھر لے آیا، جب انہوں نے میری بیوی کو دیکھا تو ان کا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا اور فرمانے لگیں:
’’اسے میرے ساتھ جانے دو، یہ چند دن میرے گھر میں رہے گی، پھر اسے دلہن کی طرح سجا کر تمہارے پاس لاؤں گی، اگر تم نے آج میری بات نہ مانی، تو میں تمہارے ساتھ زندگی بھر بات نہیں کروں گی۔‘‘
میں نے کہا: ’’جی ہاں! جو آپ کا حکم ہو، میں ماننے کے لئے تیار ہوں۔ والدہ محترمہ نے اسے تین دن اپنے گھر میں رکھا، پھر اسے دلہن کی طرح سجا کر میرے گھر لائیں، واقعی وہ بہت حسین و جمیل، قرآن و حدیث کی حافظہ اور شوہر کے حقوق کا خیال رکھنے والی سمجھ دار خاتون تھی، اس کے ہنسی خوشی کے کئے دن گزر گئے، لیکن اس کے گھر والوں کی طرف سے اس دوران کوئی ملنے نہیں آیا۔
میں چند دنوں کے بعد مسجد نبویؐ میں شیخ سعیدؒ کے علمی حلقے میں شریک ہونے گیا، میں نے سلام کیا، آپ نے سلام کا صرف جواب دیا اور کوئی بات نہ کی، جب علمی مجلس ختم ہوئی تو وہاں میرے سوا کوئی باقی نہ رہا، آپ نے فرمایا: ابووداعہ تمہاری بیوی کا کیا حال ہے؟
میں نے کہا: ’’خدا تعالیٰ نے ایسی نعمت عطا فرمائی ہے، کہ دوست اس نعمت پر خوش ہوں اور دشمنوں کو تکلیف ہو۔‘‘
یہ سن کر شیخ خوش ہوئے اور خدا کا شکر ادا کیا۔
جب میں گھر جانے لگا تو آپ نے مجھے کافی رقم عنایت کی، تاکہ ہم میاں بیوی اسے گھریلو ضروریات میں خرچ کریں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭